Aeen Ki Baqa Ke Liye Awam Ki Jang
آئین کی بقا کے لئے عوام کی جنگ
آئین کی بقا کے لئے عوام کی جنگ اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، ججوں کے پالتو ٹولے نے پارلیمان کی بالادستی پر حملہ کرنے کے لئے اپنے پَر تول لئے ہیں اور سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف ہم خیال ججوں کا ایک بینچ بنا لیا ہے۔
ہم خیال جج چاہتے ہیں کہ ان کی طاقت عوام کے ووٹوں سے زیادہ ہو، اس لئے وہ منتخب حکمرانوں کو نااہل کرتے ہیں، ہم خیال جج چاہتے ہیں کہ ان کی طاقت منتخب عوامی نمائندوں سے زیادہ ہو، اس لئے وہ پارلیمان کے امور میں مداخلت کرتے ہیں، شوقین مزاج ان ججوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو یہ جوڈیشل مارشل لاء نافذ کرکے مملکتِ خداداد کو ایسا معاشرہ بنا دیں گے کہ جہاں جس کے پاس لاٹھی ہوگی، انصاف کی بھینس بھی اسی کی ہوگی۔
انتظامی امور میں زبردست مداخلت کرکے رنگباز ججوں نے پاکستان کو بدترین نقصان پہنچایا ہے، ریں ٹل پاور کیس اور ریکوڈک کیس میں ایسے ججوں کی مداخلت سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا جرمانہ ہوا، انصاف کی مسند پر بیٹھے ان جوکروں کی فرعونیت کی انتہا یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وباء کے دنوں میں ایک جج کی دوسری بیگم نے شاپنگ کی فرمائش کر دی تو انہوں نے سوموٹو لے کر مارکیٹیں کھلوا دیں، عید سے قبل بازار آباد تھے اور عید کے بعد اسپتال اور ہزاروں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہم خیال ججوں کی انتظامی سمجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ ایک جج کو اپنی جوانی کے زمانے کا کراچی دیکھنے کی ہری ہری سوجھی تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے شہرِ قائد کی رہائشی عمارتوں کو مسمار کروانے کا حکم دینا شروع کر دیا اور ہزاروں شہری بے گھر ہو گئے، یہ جج جس غیرمتعلقہ معاملے میں گھسے ہیں، انہوں نے تباہی کی داستانیں رقم کی ہیں۔
پارلیمان کا استحقاق ہے کہ وہ جو چاہے قانون سازی کرے، کوئی اسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، پارلیمان آئین ساز ادارہ ہے، قانون وہی ہوگا جو پارلیمان میں عوام کے منتخب نمائندے بنائیں گے، عدلیہ کے سرکاری ملازموں کا کوئی حق نہیں کہ وہ عوام کے امور میں مداخلت کریں، عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ جج ہمارے خادم ہیں، ہزاروں مقدمات کے التواء کے ساتھ اپنا کام تو ٹھیک سے کرتے نہیں اور ہر بیگانی شادی میں یہ عبداللہ دیوانے پہنچ جاتے ہیں۔
اب وقت ہے آچکا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت کو منوائے اور اختیار کے نشے میں چور جوڈیشل ایکٹوازم کے کرتا دھرتا ان فرعونوں کی گردنوں سے سریا نکال کر انہیں نشان عبرت بنائے تاکہ آئندہ نظریہ ضرورت کا کوئی بھی امکان پیدا نہ ہو۔