Aafia Siddiqui
عافیہ صدیقی
عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی سرکردہ رکن تھی، عافیہ صدیقی پر دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کے لئے فنڈز اکھٹا کرنے کا بھی الزام ہے اور جب وہ پکڑی گئی تو الزام کے مطابق اس کے پاس دھماکوں کی منصوبہ بندی کی مبینہ دستاویزات بھی تھیں۔
الزامات کے مطابق عافیہ صدیقی نے 2002 میں ممنوعہ فوجی اشیاء خریدیں جس پر امریکا میں ہی ان سے پوچھ گچھ ہوئی، اس وقت وہ اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں تھیں، پاکستان آ کر انہوں نے اپنے بچے اپنی والدہ کے گھر چھوڑے، شوہر کو طلاق دی اور دہشت گرد تنظیم کے ایک سرکردہ رکن کا پوسٹ آفس باکس کھولنے امریکا چلی گئیں، یہ دہشت گرد گرفتار ہوا اور اس نے عافیہ صدیقی کی اس مدد کا بتایا، پھر عافیہ صدیقی نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے کر دہشت گرد تنظیم کے سپریم کمانڈر خالد شیخ کے بھتیجے عمار - ال بلوشی سے شادی کرلی۔
عافیہ صدیقی نے ایک اور ملزم سیف اللہ پراچہ کے ذریعے ممنوعہ اشیاء امریکا بھجوائیں، یہ موصوف بھی گرفتار ہوئے اور سزا پوری کرکے ان کی رہائی ہوئی ہے، انہوں نے بھی دوران تفتیش عافیہ صدیقی کا نام لیا جبکہ دہشت گرد تنظیم کے سپریم کمانڈر خالد شیخ نے بھی دوران تفتیش عافیہ صدیقی کے حوالے سے سب اگل دیا جبکہ بعد میں عافیہ صدیقی کا دوسرا شوہر دہشت گرد تنظیم کا اہم کارندہ عمار - البلوشی بھی گرفتار ہوگیا اور اس نے اپنی بیوی کے تمام راز فاش کر دئیے۔
عافیہ صدیقی 2003 میں پراسرار طور پر غائب ہوگئیں، اس وقت وہ امریکا کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے عافیہ صدیقی کو پکڑ کر 2003 میں امریکا کے حوالے کر دیا تھا جبکہ امریکا یہ کہتا ہے کہ عافیہ صدیقی روپوش تھی، کہا جاتا ہے کہ عافیہ صدیقی کو 2003 میں پکڑ کر افغانستان کی بگرام جیل میں رکھا گیا اور پانچ سال اس پر تشدد ہوا، جب رہا ہونے والے قیدیوں کے بیانات سے یہ خبریں سامنے آئیں تو 2008 میں امریکا نے ان کی گرفتاری ظاہر کر دی اور بتایا کہ وہ ایک امریکی فوجی پر حملہ کرتے ہوئے پکڑی گئی ہیں۔
عافیہ صدیقی کے ٹرائل میں بہت ساری خامیاں ہیں جیسے انہیں کسی دہشت گردی کی دفعہ کے تحت سزا نہیں ہوئی بلکہ امریکی فوجی پر حملے کی کوشش کے الزام کے تحت سزا ہوئی ہے اور یہ الزام اپنی جگہ انتہائی مشکوک ہے، عافیہ صدیقی کی آفیشل گرفتاری سے اب تک ملک میں تین حکومتیں آئیں اور تینوں نے اس کیس میں عافیہ صدیقی کا بھرپور ساتھ دیا، ریاست پاکستان عافیہ صدیقی کے کیس کی فیس ادا کرتی رہی۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے صرف ریاست پاکستان اور انسانی حقوق کے کچھ اداروں نے کوششیں نہیں کیں بلکہ دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیمیں جن میں طالبان، القاعدہ، داعش، بوکوحرام و دیگر شامل ہیں، وہ مغویوں کے تبادلے کے مطالبے کے ساتھ عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرتی رہیں جس سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ مزید متنازع ہوگیا۔
عافیہ صدیقی کی 86 سال کی سخت ترین سزا ایک ایسے معاملے میں ہوئی جو دہشت گردی کا معاملہ بھی نہیں تھا، اگر عافیہ صدیقی پر دہشت گردی کے الزامات درست تھے تو ان کے حوالے سے ٹرائل کیوں نہیں ہوا، ان نکات کو بنیاد بنا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ عین انصاف ہے تاہم یہ نکتہ ان خاتون کو رول ماڈل نہیں بنا سکتا، اگر قوم کی بیٹیوں کا رول ماڈل عافیہ صدیقی کو بنایا جائے تو پھر ہم ایک خطرناک اور تباہ کن مثال بنانے جا رہے ہیں جس کی مستقبل میں بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی، عافیہ صدیقی خود اپنی سگی اولاد کے لئے بھی نہیں چاہیں کہ وہ ان کے جیسا کردار اختیار کریں۔