Haqeeqat Ka Mutalashi Aam Zehan
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
حقیقت پسندی بذات خود مستحسن فعل ہے، وگرنہ دنیا جہاں کے اربوں لوگوں نے عقیدتوں اور جذباتوں کی مالائیں اوڑھ رکھی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقت(روشنی) تک رسائی یا قربت، بہرحال عقلی استدلال کے ذریعے ہی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ تاہم تعقل پسندی کی انتہاء بھی عقلی عقیدت کی ہی ایک قسم ہے، اور ہم مجبورا ََیہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے حصہ میں عقل پرست بھی جذباتی آئے ہیں۔ گویا اگر ایک انتہاء پر صاحبان جنت کھڑے ہیں ،تو دوسری انتہاء پر اہل عقل براجمان نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال میں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ، آخر ایک عام ذہن کس کی تسلیم کرے اور کس کو ٹھکرائے؟
اور پھر انتہاء وعقیدت میں گھرا نظریہ آخر کس قدر سچا اور روشن ہوسکتا ہے؟ متوازی سوچ ہی یقینی علم کا باعث بن سکتی ہے، اور ہمیں دونوں اطراف اس کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔آپ حقیقت پسند یا عقل پرست کی حیثیت سے مدلل گفتگو کرسکتے ہیں۔آپ کا مقدمہ بھی بلا کا جاندار ہوسکتا ہے ،مگر جونہی آپ اپنے مخاطب سے اپنے نظریات کا اظہار کرنے کے بجائے اس پر تھوپنے کی کوشش کریں گے ،وہ فورا ََآپ کے مدِمقابل آ کھڑا ہوگا۔ممکن ہے آپ اپنی جگہ بلکل درست ہوں، تاہم آپ کا طریقہ کار آپ کے علمی اثر کو فورا ََزائل کردے گا۔جب آپ کی اٹھنے والی ہر انگلی ہی مذہب کے خلاف ہوگی۔
آپ اپنی ساری توانائیاں مذہب کو غلط ثابت کرنے پر صرف کردیں گے۔آپ کا سارا فلسفہ ہی مذاہب کے انہدام پر مبنی ہوگا، تو کوئی اہل مذہب آپ کو کیونکر ترجیح دے؟ دوسری طرف جب خدا کی محبوب مخلوق اپنی ہی ذہنی اختراع کی بنیاد پر خود کو جنت کی حقدار ٹھہرائے گی اور باقیوں کے حق میں کافر،فاسق،لعین ورجیم اور بدبخت جیسے فتوے جاری کرے گی، تو کوئی ایک عقلمند آدمی ان کا ٹھٹھہ اڑانے کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہے؟ میں یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں" ہم اس مضمون میں مذہبی یا عقلی اعتبار سے، انتہاء پسندی کی بنیاد بننے والے نفسیاتی عناصر کا جائزہ نہیں لیں گے" جو متشددانہ رویوں کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں۔
چنانچہ ہم اپنے سوال کی جانب واپس آتے ہیں کہ، تجسس کا مارا ایک عام متلاشی ذہن کس رائے کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے؟ عقل سے رہنمائی لے یا مذہب سے؟ یہاں پر سمجھنے کی چند باتیں ہیں جنھیں میں ابتداء میں ہی عرض کرتا چلوں،مذہب خالصتاََ انسان کا انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے کیوں کہ ہر شخص(اہل مذاہب کے نزدیک) سے اس کے مذہب کے بارے میں بازگشت کی جائے گی ،لہٰذا عقلمندی کا تقاضہ یہی ہےکہ "مذہب کو اپنی گردن تک محدود رکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس چیز کا سخت پابند بنایا جائے کہ، میں دوسرے لوگوں کی زندگی میں بے جا مداخلت نہیں کروں گا اور مجھے کسی کے مذہب یا مسلک سے کوئی سروکار نہ ہوگا"۔
دوسرا،پاکستان میں بسنے والی اکثریت مسلمانوں کی ہے، لہٰذا ہم اس سوال کو اسلامی حدود وقیود تک محدود کرتے ہوئے اس کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔عام ذہن جہاں اپنے تجسس کی تسکین کا طالب ہے تو اسے یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ، فکری معاملات قوت برداشت تک محدود رہیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ اگر آپ مذہبی پیچیدگیوں،اختلافی گتھیوں کو سلجھانے بیٹھ گئے، تو آپ عمر بھر کیلئے فکری اضطراب اور بے چینی کے مریض بن جائیں گے اور اس صورت میں آپ کا شمار کیونکر عام آدمیوں میں کیا جائے گا؟ لہٰذا آپ اپنی زندگی میں مشکلیں پیدا کرنے کی حماقت نہ کریں۔
اب آتے ہیں جواب کی طرف، اگر ہم غور سے دیکھیں تو اسلام کی بنیادی تعلیمات واضح اور شفاف ہیں، مثلا ََحکم ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کریں۔رمضان میں روزے رکھیں۔استطاعت ہو تو حج کا فریضہ ادا کردیں۔کتاب مبین(قرآن) میں خدائی پیغام عبادات سے زیادہ اخلاقیات پر زور دیتا نظر آتا ہے، جس کا معاشرے میں فقدان بہرحال اہم مسئلہ ہے اور یہ صورتحال ان ٹھیکداروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ ہے ،جو ملت اسلامیہ کے اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں۔
روح وقلب جب سچائی کی روشنی سے محروم ہوں، تو بڑے بڑے جلسوں میں زبان کی حرکت اور پھیپھڑوں کا زور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔مال کی مقدار کے مطابق زکوٰة کی ادائیگی کا اہتمام کردیا گیا۔استحقاق کی بنیاد پر وراثت کی مقدار معین کردی اور تکمیل ایمان کی شرائط ہم سب پر واضح ہیں ۔گویا وہ تمام احکامات جن پر اسلامی عمارت کی بنیاد رکھی گئی ہے ،وہ خدا کی جانب سے آسان الفاظ میں بیان کردیے گئے ہیں ۔تاہم مسائل تب پیدا ہوتے ہیں ،جب مسلکی تشریحات آڑے آکر ان احکامات کو مشکل ترین شکل میں رنگ دیتی ہیں کہ نماز میں آمین کہنا ہے یا نہیں۔
ہاتھ کہا باندھنے ہیں۔ٹخنے ننگے ہوں گے یا پھر کوئی مسئلہ نہیں، کہیں قرأت کے مسائل، تو کہیں زکوٰة مولوی جی کو دیں گے یا کسی غریب ضرورت مند کے بچے کو؟ لہٰذا میرے ناقص فہم کے مطابق بہتر ہے ایک عام شخص کو فروعی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ،نیت کی مضبوطی اور تقویٰ کی تحصیل پر زور دینا چاہیے۔مثال کے طور پر ایک شخص ظہر کی نماز اپنے مسلکی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے رفع یدین اور ٹخنوں کے ننگے ہونے یا نہ ہونے کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے ادا کرتا ہے ۔
تاہم اس کے دل میں یہ خیال بھی موجود ہے کہ اس کا نماز ادا کرنے کا طریقہ ملعون بریلوی،شیعہ یا فلاں بن فلاں سے بہتر ہے ۔تو کیا دل میں نفرت کی چنگیاریاں پال کر نماز پڑھنے والے اس شخص کی نماز،ایک ایسے شخص سے بہتر ہوگی جو نماز کو صرف رضائے الہٰی کے لئے ادا کرے؟ جس کی نیت میں پاکیزگی اور قلب حبِ کبریاء کے جذبات سے موجزن ہو؟ عبادات اور دینی معاملات مکمل طور پر "رجوع الی اللہ کا" تقاضہ کرتے ہیں، اور اگر مسلکی تشریحات وافہام بنیادی اغراض ومقاصد کی تحصیل سے ہی قاصر ہوں، تو ان کی جانب ملتفت ہونے کا مطلب؟ آخر ہمارے پاس ان سے رہنمائی لینے کا کیا جواز بچتا ہے؟
لہٰذا ہر وہ شخص جو نفرت انگیزی اور تفرقہ بازی کے ناسور سے خود کو بچاتے ہوئے مذہبی احکامات کی بجا آوری کا متمنی ہے، اسے اسلام کی بنیادی صداقتوں پر کسی قسم کی جھجک اور پریشانی کے بغیر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ تاہم جو معاملات وضاحت کے متقاضی ہیں ،ان میں روشن اذہان اور بالغ ذہنوں کے حامل علماء کی جانب التفات کرتے ہوئے توضیح و تشریح کی التجا کرنی چاہیے۔ تاکہ یہ لوگ آپ پر صداقتوں کے در وا کرسکیں، نہ کہ مسلکی تشریحات میں الجھا کر اندھے غار میں دھکیل دیں۔
آخر میں رہا کہ ایک عقل پسند کو کس حد تک عقل پرست ہونا چاہیے؟ تو میرے خیال میں تعقل پسندی کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی۔آپ جس حد تک اپنی عقل اور ذہن کو استعمال کرسکتے ہیں، اس کو بروئے کار لائیں تاہم یہ یاد رہےکہ عقل کی بنیاد پر کیا جانے والا فیصلہ ،تعصبات اور عقیدتوں کی آلائشوں سے پاک ہونا چاہیے۔