Tuesday, 23 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Zootopia

Zootopia

زوٹوپیہ

بچوں کے ساتھ ہفتہ وار فلم دیکھنے کے لیے اس بار قرعہ اندازی Zootopia کے نام نکلی۔ بظاہر یہ ایک ہلکی پھلکی اینیمیٹڈ فلم تھی، جانور، رنگ، مزاح اور بچوں کی دلچسپی کے تمام لوازمات اپنی جگہ موجود تھے۔ مگر فلم دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ یہ محض بچوں کی تفریحی فلم نہیں ہے۔

فلم کا پس منظر ایک ایسے شہر پر قائم ہے جہاں مختلف فطرتوں، رفتاروں اور صلاحیتوں والے جانور ایک ہی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ فلم کی مرکزی بحث تعصب، شناخت اور سماجی کرداروں کے گرد گھومتی ہے، مگر ان سب کے درمیان ایک مختصر سا منظر آتا ہے جو بظاہر مزاحیہ ہے، جب مرکزی کردار ایک گاڑی کی لائسنس پلیٹ کے ذریعے مالک تک پہنچنے کے لیے DMV، یعنی سرکاری دفتر، کا رخ کرتے ہیں۔

یہاں منظر کا انداز بدل جاتا ہے۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے ہوئے تمام ملازم سلوتھ ہیں۔ وہ الفاظ کو حرف حرف، ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے ہیں۔ گفتگو سے لے کر ہر حرکت میں بے حد توقف ہے، ہر عمل غیر معمولی حد تک سست۔ کمپیوٹر پر ایک کی اسٹروک میں غیر ضروری لمبی تاخیر ہے اور جواب آنے تک انتظار طویل تر ہو جاتا ہے۔ بچے اس منظر پر ہنستے ہیں، کیونکہ سلوتھ کی سستی اور کاہلی ان کے لیے تفریح ہے، مگر میں اداس سی بے چینی محسوس کرنے لگا تھا۔ شاید یہ سین جان بوجھ کر طویل رکھا گیا ہے، تاکہ فلم بین بھی وہی انتظار محسوس کرے جو کردار کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کوئی خیالی تجربہ نہیں، بلکہ وہی کیفیت ہے جو انسان سرکاری دفاتر، قطاروں اور انتظامی نظاموں میں بارہا جھیل چکا ہوتا ہے۔

نفسیاتی سطح پر یہ منظر فرد کی ذہنی صلاحیت یا کاہلی پر نہیں، بلکہ ماحول کی مجموعی ذہنی رفتار پر روشنی ڈالتا ہے۔ سلوتھ کسی ذاتی یا انفرادی کمزوری کی علامت نہیں ہوتے، بلکہ یہ دکھاتے ہیں کہ جب پورا نظام سست ہو تو فرد کی تیزی بے معنی ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں انسان جلدی نہیں کر سکتا۔ وہ بے بسی سے انتظار کرنا سیکھتا ہے، خاموش رہتا ہے اور آہستہ آہستہ اسی رفتار کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ سستی فرد کی اختیاری نہیں ہوتی، بلکہ اس پر غیر محسوس طریقوں سے مسلط کی جاتی ہے۔

سماجی سطح پر یہ منظر بیوروکریسی کے اس ڈھانچے کو نمایاں کرتا ہے جہاں کام انسان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا۔ دفتر چل رہا ہوتا ہے، ملازم موجود ہوتے ہیں، فائلیں سرک رہی ہوتی ہیں، لکھے ہوئے ضابطے پورے ہو رہے ہوتے ہیں، مگر زندگی وہ جسے محسوس کیا جاتا ہے وہ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ نظام ناکام نہیں دکھایا گیا، بس بے حس دکھایا گیا ہے۔ قواعد انسانی ضرورت سے زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور کام کا معیار انسانی اضطرار یا ضرورت نہیں بلکہ جذبات و احساسات سے ماورا طے شدہ طریقہ کار بن جاتا ہے۔

سلوتھ کسی ایک ملک یا ایک دفتر کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ اس اجتماعی نظام کی تصویر ہیں جو اپنی رفتار خود متعین کرتا ہے اور سب کو اسی میں ڈھال دیتا ہے۔ انسانی رویوں کے حوالے سے یہ منظر بے اختیاری کے تجربے کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ کرداروں کے پاس مقصد ہے، وقت کی کمی ہے، جلدی ہے، مگر اختیار نہیں۔ یہی بے اختیاری انسان کو جھنجھلاہٹ سے خاموش قبولیت تک لے آتی ہے۔ یہی قبولیت رفتہ رفتہ عادت بن جاتی ہے اور عادت رویے میں بدل جاتی ہے۔ یوں انسان خود بھی اسی نظام کا حصہ بن جاتا ہے جس پر وہ کبھی تنقید کرتا تھا۔

ایسے رویے اکثر فرد کے اندر سے نہیں، بلکہ نظام کے اندر سے جنم لیتے ہیں۔ سلوتھ سست نہیں دکھائے گئے، وہ صرف وہی کر رہے ہیں جو اس نظام میں ممکن ہے۔ یعنی بعض اوقات مسئلہ انسان نہیں ہوتا، وہ رفتار ہوتی ہے جسے معاشرہ معمول بنا چکا ہوتا ہے۔

Check Also

Moscow Se Makka (7)

By Mojahid Mirza