The True Believer
دا ٹرو بلیور

پاکستان کی اجتماعی نفسیات مسلسل اضطراب کا شکار ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں آزادی تو حاصل ہوئی مگر اس کے ساتھ آنے والی فکری ذمہ داری کبھی سکھائی نہیں گئی۔ آزادی محض کھوکھلا نعرہ بن کر رہ گئی۔ یہی کھوکھلا پن ہے جسے وقت کے ہر موڑ پر کسی نئے اجتماعی خواب، کسی نئے نجات دہندہ، یا کسی مقدس تحریک سے پُر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایرک ہوفر نے شہرہ آفاق کتاب The True Believer میں لکھا تھا کہ "Mass movements are substitutes for private hopes. "
یعنی جب فرد اپنی ذاتی زندگی میں معنی کھو دیتا ہے تو وہ اپنے وجود کو کسی بڑے اجتماعی مقصد میں ضم کر دیتا ہے، ایسا مقصد جو اس کے خالی پن کو معنی دیتا ہے، خواہ وہ معنی حقیقت میں موجود نہ ہوں۔
پاکستان میں یہی کیفیت بار بار ابھرتی ہے۔ مذہبی تحریک ہو، سیاسی دھرنا، یا نئے رہنما کا ظہور، عوام اپنی ذات کے خلا کو کسی بیرونی مقصد کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لیے تحریک میں شامل ہونا صرف عمل نہیں بلکہ جذباتی نجات کا ذریعہ ہے۔ وہ جان کی قربانی کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں، غصے کو عقیدے اور عقیدت کا رنگ دیتے ہیں اور اپنی مایوسی کو انقلاب کے وعدے میں بدل دیتے ہیں۔ ان کی شرکت اکثر فہم کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ احساسِ بے بسی اور محرومی کے ردعمل کے طور پر جنم لیتی ہے۔
یہ نفسیاتی عمل اس وقت شدید ہوتا ہے جب سماجی ادارے فرد کے اندر سوال کی جرات کو دبانے لگتے ہیں۔ تعلیم تنقید کی بجائے اطاعت و وفاداری سکھاتی ہے، مذہبی جماعتیں عقل کے بجائے اندھے یقین کی تلقین کرتی ہیں اور سیاست مکالمے کے بجائے تقلید کی روش پر انحصار کرتی ہے۔ نتیجتاً فرد اپنی شناخت کو کسی گروہ، نظریے یا رہنما کے تابع کر دیتا ہے جو اس کے نام کے ساتھ نتھی ہوجاتی ہے اور یہی لمحہ اس کی داخلی آزادی کے خاتمے کا ہوتا ہے، جب وہ True Believer بن جاتا ہے۔ ایسا شخص جو اپنی عقل کے بجائے کسی نعرے پر جیتا ہے اور جس کے لیے وفاداری فہم و ادراک سے زیادہ قیمتی ہے۔
ایرک فرام نے Escape from Freedom میں واضح کیا تھا کہ انسان کو آزادی جتنی عزیز ہے، اس کی تنہائی اور ذمہ داری اتنی ہی خوفناک لگتی ہے۔ وہ کسی طاقتور ہستی یا نظریے کی پناہ میں جا کر اپنے وجودی بوجھ سے نجات چاہتا ہے۔ یہی نفسیاتی میکانزم پاکستانی معاشرے میں بار بار دہرایا جاتا ہے، آزادی کی خواہش رکھنے والے لوگ جب اس کے تقاضے پورے نہیں کر پاتے تو خود ہی کسی اتھارٹی یا آمر کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ہر چند سال بعد کوئی نیا نجات دہندہ نمودار ہوتا ہے اور عوام اپنے خالی پن کے احساس اور اندرونی جذباتی کشمکش کو اس کے گرد باندھ دیتے ہیں۔
کارل ژونگ کے مطابق ہیرو کا تصور اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے۔ مگر جہاں انفرادی شعور پختہ نہ ہو، وہاں یہی تصور اندھی عقیدت میں بدل جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ہیرو کبھی مذہبی رہنما کی صورت میں آتا ہے، کبھی وردی میں اور کبھی عوامی نعرے کی صورت میں سیاسی رہنما۔ مگر جب اس کا جادو ٹوٹتا ہے، تو وہی عوام ایک نئے مایوس دور میں داخل ہو جاتے ہیں، جیسے ان کے اندر ایک دائروی جلاوطنی چلتی رہتی ہو، عقیدت سے مایوسی تک، پھر مایوسی سے نئی عقیدت تک نہ ختم ہونے والا تسلسل۔
گستاف لی بون کے مطابق ہجوم میں فرد اپنی شخصیت کھو دیتا ہے، وہ سوچنے والا انسان نہیں رہتا بلکہ اجتماعی جذبات کا پرزہ بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت پاکستانی سیاست، مذہبی مظاہروں اور عوامی ردعمل میں نمایاں ہے۔ یہاں جذبات دلیل کی جگہ لے لیتے ہیں اور شور مکالمے پر غالب آ جاتا ہے۔ ہجوم میں شخص اپنی عقل گروی رکھ دیتا ہے اور اپنے وجود کا مفہوم کسی اور کی دی ہوئی سمت میں تلاش کرتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسا سماج تشکیل دیتے ہیں جہاں انفرادیت جرم اور سوال اٹھانا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں خوف ایک اجتماعی اقدار بن چکا ہے، خوفِ تنہائی، خوفِ سچ، خوف سوچنے کا۔ نتیجتاً معاشرہ جذباتی توانائی کا ایک مسلسل طوفان تو بن چکا ہے، مگر فکری طور پر ساکت و جامد رہتا ہے۔ ہر شخص تبدیلی چاہتا ہے مگر اس تبدیلی کی فکری قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔
پھر بھی امید افزا بات یہ ہے کہ، یہ تصویر مکمل طور پر تاریک نہیں۔ اجتماعی تحرک بذاتِ خود انسانی مضبوط ارادے کی علامت ہے، یعنی اس بات کا ثبوت کہ انسان اپنی حالت پر مطمئن نہیں اور وہ شدت سے تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر یہی توانائی شعور، اخلاقی ہمت اور فکری دیانت سے جڑ جائے، تو یہی ہجوم ایک باشعور قوم بن سکتا ہے۔ لیکن جب تک فرد فیڈڈ، لوڈڈ یا دکھائے گئے اور بتائے گئے سے الگ ہوکر اپنے اندر سوال اٹھانے، سوچنے اور خود فیصلے کرنے کی ہمت پیدا نہیں کرتا، تب تک وہ ہر نئے نعرے، ہر نئے رہنما اور ہر نئے مقدس مقصد کے ہاتھوں اپنی آزادی اور اپنی شناخت قربان کرتا رہے گا۔

