Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Qaumon Ki Baqa Aur Taraqi Ka Raz

Qaumon Ki Baqa Aur Taraqi Ka Raz

قوموں کی بقا اور ترقی کا راز

قوموں کی بقا اور ترقی کا راز ان کی اقدار اور اخلاقیات میں مضمر ہوتا ہے۔ اسی طرح سماج کی بقا اور ترقی کا راز سماجی قوانین اور ان پر عمل درآمد کرنے میں ہوتا ہے۔

میں اگر کہوں کہ میرے مطالعے اور تجربے کا یک لفظی نچوڑ کیا ہوسکتا ہے تو وہ ہے "اخلاقیات" اخلاق کائناتی شعور کا محور اور مرکز ہوتا ہے اور پوری کائنات جس ضابطے اور قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں ٹھیک ٹھیک گردش کرتی ہے وہ اخلاق کہلاتا ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا ہماری قوم کی اخلاقیات باقی رہ گئی ہیں؟

آج ہم اگر ترقی یافتہ قوموں کے متعلق پڑھنا چاہیں تو جاپان جیسے ممالک کے متعلق پڑھتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں جاپان کے اسکولوں میں اخلاقی تربیت کے لیے غیر جاپانی شخص کی کہانی پڑھائی جاتی ہے؟

1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں، جوڈو کراٹے کھیل میں مصری جوڈوکا محمد رشوان اولمپکس میں شامل تھا، اور اس نے سیمی فائنل سمیت تمام ابتدائی راؤنڈ میں کلین سویپ کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔۔

ہر کوئی پر یقین تھا کہ وہ فائنل میچ کھیلے گا، اور مصر، تاریخ میں پہلی بار، اولمپک تمغہ اپنے گھر لے جائے گا، چاہے طلائی ہو یا چاندی کا۔

اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ہرجگہ اس کے متعلق خبریں پھیلانا شروع کردیں ہر قسم کے میڈیا پر اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اس کے فین کلب سمیت ہورا مصر اسے مستقبل کا چیمپئن تصور کرکے فخر محسوس کرنے لگا تھا۔ فائنل کا دن آیا اور میچ ہوا کے دوش پر نشریاتی سفر کرتا ہوا امریکہ، جاپان، یورپ، مصر اور مصر سے باہر عرب دنیا میں ہر جگہ پر نشر ہونے لگا۔ فائنل مقابلے میں محمد رشوان کا مدمقابل چار بار عالمی چیمپئن رہنے والا جاپانی کھلاڑی یاماشیتا تھا۔

لیکن جیسے ہی میچ شروع ہوا، تو محمد رشوان کے کھیلنے کے انداز کو دیکھ کر اولمپک مقابلہ دیکھنے والی پوری دنیا ششدر رہ گئی، وہ دن عجیب کھیل پیش ہورہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے محمد رشوان مد مقابل سے جیتنے کی بجائے ہارنے کے لیے کھیل رہا تھا۔

رشوان اپنے حریف کے ساتھ بھرپور تصادم میں تو تھا، لیکن وہ اس کے جسم کے بائیں حصے بالخصوص بائیں ٹانگ پر بالکل بھی وار نہیں کررہا تھا، اور اولمپکس جوڈو کراٹے کے فائنل مرحلے میں یہ نہایت عجیب منظر تھا۔۔ رشوان نے اپنے ہر راؤنڈ میں کئی قیمتی مواقع اور پوائنٹس کھوئے، اس دن پوری دنیا نے رشوان کے کوچ کی چیخیں سنی وہ جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ: اسے مارو، اس کی بائیں ٹانگ پر کک مارو۔۔

لیکن اس نے کوچ کی ہدایت ماننے اور حریف کو مارنے سے انکار کر دیا اور اس طرح سے رشوان نے پوائنٹ لینے یا جیتنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے کھیل سے کروڑوں لوگوں کا دل توڑ رہا تھا۔ اور یوں بالآخر جاپان نے گولڈ میڈل جیت لیا۔

مصری شائقین طلائی تمغہ حاصل نہ کرنے پر غمزدہ تھے اور یہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ رشوان اپنے حریف کے مقابل جم کر اور جارحانہ انداز سے کیوں نہیں کھیلا، حتیٰ کہ اس نے کھیلنے کے اپنے فطری انداز کا بھی مظاہرہ نہیں کیا اور ہر چیز سے بڑھ کر اس نے کوچ کی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فائنل مقابلے کے بعد تمغے تقسیم ہوئے اور پریس کانفرنس ہوئی تو ایک غیر ملکی صحافی نے کھڑے ہو کر محمد رشوان سے پوچھا: میچ کے دوران تم نے اپنے کوچ کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کیا؟

رشوان نے جواب دیا: " میچ شروع ہونے سے تھوڑی دیر قبل مجھے مصدقہ اطلاع ملی تھی کہ جاپانی چیمپئن کے بائیں گھٹنے کے اندرونی حصے میں شدید ورم ہے، اور اس کی بائیں ران کے عضلات زخمی ہیں اور مدمقابل کی فقط ایک کوئی بھی زور دار کک اسے مکمل طور پر تباہ کر سکتی ہے، لیکن اُس نے خبر چھپائی اور اپنے ملک کی خاطر کھیلنے اور قربانی دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اپنے وطن کا نمائندہ تھا اور اس کے ملک نے اس کے فائنل میچ کے لیے ہی تمام تر اخراجات برداشت کیے تھے۔

یہاں اسی صحافی نے دوبارہ سوال کیا اور کہا: یہ تو بہت اچھا موقع تھا، اور آپ کو بھی اپنے ملک کی خاطر جیتنا چاہیے تھا۔۔ آپ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملک کے لیے طلائی تمغہ کیوں نہیں حاصل کیا؟

محمد رشوان نے کہا بظاہر ایسا لگتا تھا کہ قسمت نے تمام رکاوٹوں کو توڑنے اور وہ بننے کا بہترین موقع فراہم کیا تھا جس کا میں نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا، اولمپک کا عالمی چیمپئن۔ لیکن اس وقت کے 28 سالہ نوجوان نے اسے مختلف انداز میں دیکھا، بہت مختلف۔

"مجھے جب اس کی انجری کے بارے میں پتا چلا تو میرے ذہن میں سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا کہ 'میں اس کی دائیں ٹانگ پر کوئی وار نہیں کروں گا" اگرچہ کوچ سمیت دیگر لوگوں نے مجھے بتایا کہ جیتنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ بطورِ مسلمان میرا مذہب مجھے کسی زخمی شخص کو مارنے اور تمغے کی خاطر اس کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے سے روکتا ہے! اس کا فقط یہ کہنا تھا کہ پوری دنیا کے شائقین اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے اور ہارنے والے چیمپیئن کے لیے بڑی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ یونیسکو نے محمد رشوان کو طلائی تمغے کے اعزاز سے نوازتے ہوئے عظیم اخلاق کا چیمپئن قرار دیا، اور اسے دنیا بھر میں بہترین اسپورٹس مین شپ رکھنے والا کھلاڑی منتخب کر لیا گیا۔

اولمپکس آرگنائزنگ کمیٹی نے اسے اعزازی گولڈ میڈل سے نوازا کیونکہ وہ وہ واقعی اس کا مستحق تھا۔ محمد رشوان کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی، اور جاپانیوں نے خاص طور پر اس کی عزت و تکریم کی، اسے شاہی تاج پہنا کر اعزازی بادشاہ کہا گیا، اور جاپان کے ہی ایک معزز گھرانے نے اپنی بیٹی اس کے عقد میں دے دی، وہ جب بھی جاپان کا سفر کرتا ہے تو ہر بار اس کا فقیدالمثال استقبال کیا جاتا ہے۔

شاید اگر رشوان اس روز سونے کا تمغہ جیت لیتا تو اسے دنیا بھر کے دِلوں میں جتنی عزت، تعریف اور محبت ملی وہ آدھی بھی نہ ملتی۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz