Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Ashiyana Dar Qafas

Ashiyana Dar Qafas

آشیانہ در قفس

میں نے اکمل شہزاد گھمن کی پنجابی کہانیوں کے مجموعہ " پنجرے وچ آہلنا " کو فارسی عنوان اپنی فارسی دانی کے اظہار کی خاطر نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ جب جدید فارسی افسانہ نگاروں اور شاعروں نے بول چال کی زبان استعمال کی اور می شود کو میشے لکھنا شروع کیا تو نہ صرف فارسی ادب کی شان بڑھی تھی بلکہ قارئین کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا لیکن اکمل نے نئی چال یہ چلی کہ بناوٹی ادبی زبان نہیں لکھی۔

مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس نے شعوری طور پر کوئی تنوع پیدا کرنے کی غرض سے جیسے ایرانی ادیبوں شاعروں نے کیا تھا، ایسا نہیں کیا بلکہ یہ اس کا بے ساختہ انداز بیان ہے جو لوگوں تک پھیلانے کے لیے تحریر بن گئی جب کہ کہانیاں پڑھتے ہوئے لگتا یہ ہے جیسے ہل چلائے کھیت میں سردیوں کی رات میں ڈھلتی شام کے وقت بھانبھڑ کے گرد جمع اپنی بستی والوں میں بیٹھا اکمل انہیں سچی کہانیاں سنا رہا ہو۔

اکمل کو شک ہے کہ وہ منڈا کھنڈا دکھتا شخص ہے۔ اس نے مجھ سے دو چار بار باقاعدہ اس عاشق کی طرح جسے معشوق کی جانب سے محبت پر بلکہ اپنی محبت پر بھی شک ہوتا ہے اور وہ معشوق سے دن میں دو چار بار پوچھ لیتا ہے کہ کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو لیکن اثبات میں ملا جواب اس کو تسلی نہیں دیتا اور وہ پھر یہی پوچھتا ہے کہ کیا میری محبت پہ تمہیں اعتبار ہے، مجھ سے پوچھا کہ کہیں آپ کو ایسا تو نہیں لگتا کہ کھلنڈرا سا دکھنے والے اکمل نے یہ کیا سنجیدہ کتاب لکھ ڈالی؟

یعنی اس کی بہت معروف ہونے والی تحقیقی کتاب " میڈیا منڈی " جسے ایک ادبی محفل میں اکمل کا تعارف کرانے والے نے " ہیرا منڈی " کہہ دیا اور میں لمحہ بھر کو سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اکمل نے اس نام کی کتاب بھی لکھی ہے کیا؟ مگر اکمل جو خود کہانی سنانے کو سٹیج پہ تھا، نے تصحیح کی " میڈیا منڈی " جس کا چوتھا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے اور یہ کتاب فی الواقعی میڈیا کی ہیرا منڈی ہے جہاں خبر فروشی بدن فروشی کے روپ میں پیشہ ہے خبر کاری اور خبر گوئی نہیں۔

میں اس کے اس سوال کا یہی جواب دے سکا کہ تم کہاں سے کھلنڈرے لگتے ہو، تم تو باقاعدہ سنجیدہ ہو۔ میڈیا منڈی پہ بات پھر کبھی فی الحال اس کی کہانیوں سے متعلق۔

اکمل نہ کہانی گوندھتا ہے نہ ہی کہانی بنتا ہے، کہانی اس سے خو بہ خود کہی جاتی ہے۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تقسیم سے دو دہائی بعد پیدا ہونے والا جب فسادات بارے کوئی کہانی لکھے تو اگر وہ کہانی راجندر سنگھ بیدی، خوشونت سنگھ اور کرشن چندر کی اس ضمن میں لکھی کہانیوں سے زیادہ پراثر نہ ہو تو کم اثر بھی ہرگز نہ ہو۔ اکمل کی کہی ایسی کہانی میں یوں لگتا ہے جیسے وہ خود ناظر رہا ہو۔ یوں تو اکمل اپنی ہر کہانی میں یا باہر بیٹھا مشاہدہ کار ہے یا کہانی کے اندر موجود شریک ستم کیشی۔

اکمل بہ ظاہر دو بچیوں کا بھرپور باپ بلکہ اس تیسری بچی کا بھی جو اس کے گھر کی دیکھ ریکھ کرتی ہے اور واحد بیوی کا فرماں بردار شریک حیات لگتا ہے لیکن کتاب کا عنوان بننے والی کہانی " پنجرے وچ آہلنا " میں استعارہ کے طور پر پنجرے میں بند کرنے کی کوشش والے پرندہ یا پرندی فاختہ کو نہیں بھولا اگرچہ اسے بھلائے جانے پہ ہلکا سا اصرار کیا ہے لیکن ساتھ ہی بس یونہی کہیں سے آ کر پنجرے میں گھونسلہ یا آشیانہ در قفس بنا لینے والی کبوتری پر پوری توجہ دیتے ہوئے اس سے مکمل التفات کا اظہار کرنا بھی نہیں بھولتا۔

بھولنے کی بات پر اسی کہانی کا یہ فقرہ دیکھیں: ہر کوئی اک دوجے اگےاپنے چنگے ہون دا بھلیکھا قائم رکھنے دی کوشش وچ رجھیا اے (ہر ایک، اک دوجے کے سامنے اچھا ہونے کی بھول قائم رکھنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے) جو اسلام آباد یعنی باقاعدہ سرکاری شہر کے باسیوں کے المیہ اور تزویری منافقت کا بہت سیدھا اور خوب صورت اظہار ہے۔

میں پنجابی باپ کا بیٹا ہونے کے باوجود خود کو سرائیکی کہتا اور سمجھتا ہوں۔ دلائل دیتا ہوں کہ سرائیکی ایک علاحدہ زبان ہے لیکن پنجابی کو ماں زبان بالخصوص اردو کی ماں زبان بھی مانتا ہوں مگر اکمل نے تو وہ وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو بہت سے نجیب الطرفین سرائیکیوں کو بھی معلوم نہیں ہوں گے۔ اس نے یہ الفاظ، ہمارے ان سرائیکی ادیب دوستوں کی طرح الفاظ شناسی کارعب ڈالنے کو نہیں بلکہ دیہات میں بولی عام پنجابی زبان کے انگ کے طور پر برتے ہیں۔

اب کہانی " او۔۔ ہوڑیاں ! ، کا یہ پیرا دیکھیے: وساکھی اتے دھاناں والی میلہ ہوندا سی۔ مہینہ پہلوں ای بوٹے شیخ نے شام نوں دتے باشے کیاں دیاں نیائیاں چ بنے پڑ وچ ڈھول وجانا شروع کر دینا۔ سارے پنڈ دے منڈیکے ڈھول آگے بھنگڑا پیا پانا۔ وساکھی والے دن میلے توں اک رات پہلاں راٹھے مصلی روٹی چ دبیا بھانڈا کڈھنا تےسویر تک کئیاں پی پی انھیاں بولیاں ہو کے پلکھو نالے چ وساکھی نہا کے اوتھے ای کنڈھے تے پیا رہنا۔ اوہ میلے جان جوگے آی نئیں سن رہندے۔ " اگر کوئی اور پنجابی ادیب ہوتا تو ڈھول وجانا شروع کر دیندا، لکھتا لیکن اکمل ادیب نہیں کہانی گو ہے، حال بیان کرتا ہے اگرچہ معاملہ ماضی کا ہی کیوں نہ ہو۔

اکمل کی ہر کہانی بارے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میں نے کسی بھی کہانی بارے اس لیے نہیں لکھا کہ پڑھنے والے کا مزہ خراب نہ ہو۔ البتہ اس کتاب کی آخری اور طویل ترین کہانی " مسلمان " مذہب کے ٹھیکیداروں بلکہ منافق مسلمانوں کی قلعی کھول کے رکھ دیتی ہے۔

مجھے اکمل کی کہانیاں اتنی اچھی لگیں کہ سب پڑھ کے ہی سویا، یہ کتاب آپ کی رات بھی لے لے گی اور آپ کو اتنا کچھ محسوس کرنے، سوچنے، لطف لینے اور کرب سہنے کو دے دے گی کہ اس کے بعد اگلی کتاب آپ فکشن نہیں بلکہ نان فکشن پڑھیں گے کہ فکشن کو تو فی الحال اکمل کی کہانیاں نگل جائیں گی۔۔ مگر مچھ کتاب ہے قسم سے۔

Check Also

Mehanga Sabaq

By Khalid Mehmood Rasool