Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Imam Khomeini Dawat, Tehreek o Afkar

Imam Khomeini Dawat, Tehreek o Afkar

امام خمینی دعوت، تحریک و افکار

ایرانی انقلاب کے اوپر مختار مسعود کی لوح ایام وہ پہلی کتاب تھی جو میری نظر سے گزری۔ مختار مسعود ایک پاکستانی بیوروکریٹ تھے جنہیں 1977 میں چار سال کے لیے آر سی ڈی (ریجنل کوپریشن فار ڈیویلپمنٹ) کے سربراہ کے طور پر چنا گیا تھا جس کا صدر دفتر تہران میں تھا۔ تو اس طرح آپ نے بادشاہت کے آخری دور اور انقلاب کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ میں نے ان کی کتاب پر تین حصوں میں تبصرہ کیا تھا جن میں سے آخری حصہ میں تہذیب و تمدن کی تاریخ، اسلامی افکار (کہ جن ہر اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی) اور ان مفکرین و دانشوروں کے انٹرویوز تھے جنہوں نے قوم کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ہر اچھی کتاب اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتی ہے جو قاری کو تلاش و جستجو میں مگن رکھتی ہے۔ لوح ایام نے بھی کچھ ایسا ہی کام کیا۔ مختار مسعود چونکہ اس ملک میں اجنبی تھے تو جتنی ان کو انقلاب کی سمجھ آئی انھوں نے بیان کر دیا (جس میں بہت سے نکات ان کی نظروں سے اوجھل ہی رہے)۔

اب جب میں نے اپنی لائیبریری میں نظر دوڑائی تو یہ کتاب میرے ہاتھ لگی جس کے چند صفحات کے مطالعہ سے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ ہی وہ کتاب ہے جو مختار مسعود کے چھوڑے ہوئے نکات کو پر کرے گی۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ جس کے پہلے حصہ میں امام خمینی کا مختصر تعارف ہے جبکہ دوسرا حصہ امام کی کتاب "الحکومتہ الاسلامیہ" کا ترجمہ ہے جس میں اسلامی حکومت کا خاکہ "ولایت فقہیہ" کے تصور میں پیش کیا گیا ہے جو کہ امام کے سیاسی افکار کی بہتری عکاسی کرتی ہے۔ اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔

سب سے پہلے مصنف نے ایران کی سو سالہ تاریخ بیان کی ہے کہ کس طرح جمال الدین افغانی نے افغانستان، مصر، ترکی اور پھر ایران میں استعماری قوتوں کے خلاف تحریک حریت جاری کی۔ جس کے نتیجے میں آیت اللہ میرزا حسن شیرازی نے تمباکو کی حرمت کے بارے فتویٰ دے دیا جس نے ملک کے طول و عرض میں ایک سیاسی مطالبہ کی صورت اختیار کر لی۔

اس کے بعد امام نے روس، برطانیہ، امریکہ کی گٹھ جوڑ کو تفصیل سے بیان کیا کہ کیسے یہ ممالک جغرافیائی اور سیاسی طور پر ایران میں نظریں جمائے بیٹھے تھے اور اپنے پسند کے حاکم یہاں تعینات کرتے تھے۔ جن کے خلاف ایران کے علما اور فقہا نے ہر دور میں عملی جدوجہد کا مظاہرہ جاری رکھا۔

علما کی جدوجہد کے نتیجے میں سامراج کے لیے ایران میں کھل کر حکومت کرنا مشکل تھا جس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ اسلامی قوانین میں "پیوند کاری" کی جائے۔ بیلجیم، فرانس اور انگریزی قوانین سامنے رکھ کر ان کو اس طرح سے اسلامی قوانین میں ضم کیا گیا کہ کم علم یا ترقی پسند مسلمان انھی قوانین کو اسلامی قوانین سمجھنے لگے۔

سب سے پہلے آپ نے ان نکات پر بحث کی اس کے بعد ان کے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی حکومت کیوں ضروری ہے جس میں ہیئت حاکمہ کی ضرورت و اہمیت، اسلام کے مالی و دفاعی احکامات، دیوانی و فوجداری قوانین اور تشکیل حکومت کی ضرورت سے عوام کو روشناس کروایا۔

اسلامی نظم حکومت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں کھل کر بیان کیا۔ جو لوگ سیاست اور حکومت کو اسلام سے الگ سمجھتے ہیں ان پر سختی سے گرفت کی۔ اپنے مباحث میں یہ بات بار بار باور کروائی کہ اسلام آیا ہی حکومت کرنے کے لیے ہے۔ جو علما، فقہا، مشائخ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف بیانات کے ذریعے وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ آئمہ کرام کی مثالوں سے عملی جدوجہد کی توجیہ پیش کی اور اپنے دور کے علمائے کرام کو اس کی دعوت دی۔

اس کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل کو کھل کر بیان کیا ہے جس میں علما کو ذمہ داریاں اٹھانے کی تنبیہ کی ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اسلامی تعلیم و تربیت کی طرف راغب ہونے کی سفارش کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دینی اجتماعات کی افادیت، زمانہ حاضر کا عاشورہ، دین و سیاست میں تفریق کا شوشہ، نام نہاد پیری اور دینی درسگاہوں کی تطہیر پر بھی کھل کر بحث کی گئی ہے۔

اس کتاب میں جو سب سے اہم بات سمجھ آتی ہے وہ قوانین الہی کے نفاذ سے متعلق ہے۔ کیونکہ تشریح تو قرآن و حدیث میں جابجا ملتی ہے مگر نفاذ کے لیے کوئی کوشش کرتا نظر نہیں آتا۔

Check Also

Hijrat Ka Ghuroor Ya Dukh

By Rauf Klasra