Kya Haal Sunawan Dil Da
کیا حال سنا واں دل دا

ہم تقریباً روزانہ کسی ملاقات یا فون پر فیملی، عزیز و اقارب یا دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ آپ کیسے ہیں؟ لیکن کیا ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ایک ہی خاندان کے اندر ایک ساتھ رہنے والے افراد کے بھی کئی ایسے مسائل ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ جنہیں وہ شئیر کرنا چاہتے ہوں لیکن وہ اس کی ہمت نہ کر پا رہے ہوں۔ بلاشبہ اپنا مسئلہ یا دکھ صرف اسی کے ساتھ بانٹا جا سکتا ہے جو آپ کے دل کے قریب ہو اور جس سے امید ہو کہ وہ آپ کواس الجھن سے نکال سکتا ہے، یعنی اپنا دل کھول کر کسی کے سامنے رکھنے سے پہلے آپ کو اس پر اعتماد اور یقین ہونا چاہیے۔
جس طرح ایک بچہ اپنے والدین سے اس یقین کے ساتھ اپنی مشکل شئیر کرتا ہے کہ وہ اس کا حل نکال لیں گے۔ لیکن اگر اسے ڈانٹ ڈپٹ اور مار پڑنے کا ڈر ہو تو وہ اپنے مسائل کو خود تک ہی محدود کر لے گا اور کبھی باپ کی سختی اور ڈسپلن کی وجہ سے پہلے ماں کو اپنی الجھن کا رازدار بنائے گا۔ اگرچہ بدلتے وقت کے ساتھ والدین اور بچوں میں دوستانہ تعلقات کا فروغ خوشگوار تبدیلی ہے، اس سے آپ بچوں کی بہتر طور پر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ یعنی آپ کچھ یا کافی حد تک باخبر ہیں، کہ وہ اپنی زندگی میں کن حالات سے دو چار ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ آپ سے اپنی کوئی بات بھی شئیر نہ کریں یا خوف کی وجہ سے اسے چھپائیں۔
کئی دہائیاں پہلے گاؤں میں بیٹھک کا رواج ہوتا تھا۔ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنا، مسئلے مسائل سننا اور سنانا۔ اس طرح گھریلو خواتین کی سچی اور تصنع یا بناوٹ سے پاک دوستیاں بھی مثال ہوا کرتیں تھیں۔ بلاشبہ ہر شخص کا اپنا ایک الگ مزاج ہے۔ کچھ لوگ اپنے مسائل یا تکالیف کو صرف خود تک یا کسی بہت قریبی رشتے تک محدود رکھتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ صرف چند ملاقاتوں میں ہی اپنا سب حال احوال کھل کر بتانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ کسی کی کمزوری یا پریشانی جان کر اسے خود تک محدود رکھنے کا ظرف بھی ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ یہاں ہم اکثر کمزور پڑ جاتے ہیں۔
ہمارے مشاہدے میں کھلکھلاتا اور خوش باش شخص اپنے اندر کیا طوفان سمیٹے ہوئے ہے؟ بظاہر فولاد کی طرح مضبوط نظر آنے والے انسان کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے؟ ظاہری طور پر مغموم اور مرجھانے ہوئے لوگوں کی زندگی آسائشات سے مزین اور پھولوں کی سیج ہو سکتی ہے؟ بہت سے رشتوں میں گھرا ہوئی کوئی انسان اپنی ذات میں اتنا ہی تنہا بھی ہو سکتا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ ہم وہی مان رہے ہیں جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ لوگ اپنے لئے دوسروں کی آنکھ میں ہمدردی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے وہ اپنے اصل حالات و واقعات دوسروں سے شئیر کرنا پسند بھی نہیں کرتے۔ بے شک دکھ اسی سے سانجھا کیا جاتا ہے، جہاں اسے سمجھے جانے اور حوصلہ ملنے کی امید ہو۔ ورنہ اکثر آگ بجھانے والوں سے زیادہ تعداد اسے ہوا دینے والوں کی ہوا کرتی ہے۔ یعنی بات بننے کے بجائے اور بگڑ جائے۔
انسانی زندگی بہت سے ادوار سے گزرتی ہے۔ کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی ہار تو کبھی جیت، کبھی فائدہ تو کبھی نقصان، کبھی محفل تو کبھی تنہائی۔ دنیا میں تنہا آکر تنہا واپس جانے تک زندگی میں بہت سے پیچ و خم آتے ہیں۔ ہر دن دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ زندگی کے سفر میں میں ہم کہیں جذباتی صدمے سے گزرتے ہیں، کہیں مالی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں کسی موڑ پر اپنی ہی اولاد کی طرف سے کسی چوٹ کو سہنا پڑتا ہے۔ کبھی زندگی کے ساتھی کی طرف سے دل آزاری اور بے وفائی کا سامنا ہوتا ہے۔ کبھی اہل خانہ کا رویہ رنجیدہ اور دکھی کر جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے اس سفرمیں ہمارا پروردگار، ہمارا رب ہی تو ہے جو ہمیں ان تمام آزمائشوں میں صبر اور حوصلہ عطا فرماتا ہے۔ جس سے ہم بلا خوف خطر اپنا حال احوال، سب راز بانٹ سکتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر سکتے ہیں اور وہ سب پر اپنی رحمت کا پردہ ڈال دیتا ہے کہ مومن تو سب سے پہلے اسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔
زندگی کا ارتقائی سفر ہمارے روزمرہ کے رویوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تیز رفتار اور فعال زندگی میں ٹھہراؤ آنے لگتا ہے۔ ہمارے کام کاج میں تھکن اور رویوں میں سرد مہری یا تلخی آنے لگتی ہے۔ باتیں بھولنے لگتی ہیں۔ برداشت بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ وہی باتیں جو کبھی ہنسی میں اڑا دی جاتی تھیں، اب دل کو رنجیدہ کر جاتیں ہیں۔ خوبصورت الفاظ کے پیرہن میں لپٹے زندگی سے بھر پور رشتے وقت کے ساتھ خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ صرف ساتھ رہنا کافی نہیں، زندگی کو احساس، گفتگو اور ایک دوجے کا خیال خوبصورت بنائے رکھتا ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہو، اورکبھی حال احوال پوچھا جائے تو جواب آنکھوں کی نمی دیا کرتی ہے۔ یعنی شاید رشتوں کی جڑ ابھی باقی ہے۔ لیکن جب آنکھیں بھی خشک ہو جائیں، تو سمجھ لیں، رشتوں کا پیڑ سوکھ چکا ہے۔ اگر یہ جڑ سے نہ بھی اکھڑا تو شاید کبھی ہرا بھرا نہ ہو سکے۔ اپنے ساتھ پیارے اور قیمتی رشتوں کی قدر کریں اور انہیں جیتا جاگتا اور سر سبز رکھیں۔