Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Khawateen Ka Din

Khawateen Ka Din

خواتین کا دن اور وراثتی حق تلفی کے منفرد انداز

ہر سال خواتین کے عالمی دن پر میری کوئی نہ کوئی تحریر ضرور سامنے آتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ میں نے کچھ نہ لکھا تو میرئے بہت سے قارئین نے مجھ سے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین کی آبادی کے دیگر مسائل تو بہت دور کی بات ہے۔ میں تو صرف خواتین کے معاشرتی اور وراثتی حق تلفی پر لکھ لکھ کر تھک چکا ہوں۔ لیکن معاملات میں بہتری نظر نہیں آتی۔ جبکہ میں ہر مرتبہ وراثتی حق تلفی کے مختلف طریقہ کار کے بارئے میں لکھتا رہا ہوں۔ لیکن ہر مرتبہ اس حق تلفی کا کوئی نہ کوئی نیا اور جدید انداز سامنے آجاتا ہے۔

ہم خواتین کا عالمی دن بھی زور شور سے مناتے ہیں۔ جس کا مقصد خواتین کے حقوق، برابری اور سماجی انصاف کی حمایت اور اس کے لیے کوشش کرنا ہوتا ہے۔ مگر نت نئے طریقوں سے ان کو بنیادی حقوق سے محروم ہی رکھا جاتا ہے۔ ان میں سب سے بڑی ناانصافی وراثت میں ان کی حق تلفی ہوتی ہے اور دنیا کی نصف سے زیادی آبادی کو نت نئے طریقوں سے ان کے حق سے محروم کرنے کی یہ کوشش جاری رہتی ہے۔

ہماری اس بارئے میں مثبت سوچ تقاریر، سیمینارز، جلسوں، جلوسوں، تحریروں اور مضمونوں میں بظاہر تو دکھائی دیتی ہے اور یہ اس عزم کو دہرانے کا دن ہوتا ہے کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دئیے جائیں لیکن پس پردہ ہم میں سے اکثر اس کے برعکس سوچ رکھتے ہیں۔ وراثت میں حق تلفی صرف سماجی یا معاشرتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اخلاقی، مذہبی اور قانونی جرم بھی ہے۔ جس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہمیشہ ہی محسوس کی گئی ہے کہ اگر ہم واقعی خواتین کے حقوق کے حامی ہیں تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر پہلے ان کا حق وارثت دل سے تسلیم کرنا اور دلوانا ہوگا۔

پاکستان میں یہ حق تلفی کوئی نیا مسئلہ نہیں گو کہ ہم پہلی حق تلفی تو بچی کی پیدائش پر خوشی نہ منا کر ہی کردیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید پیچیدگیاں اور ہوشیاریاں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں پہلے خواتین کو زبردستی یا دباؤ کے ذریعے اس حق سے محروم کیا جاتا تھا پھر ہمدردی اور محبت کے نام پر خواتین کو جذباتی کرکے یہ حق تلفی خوشی خوشی کرا لی جاتی تھی اور اس خاتون کو اس حق تلفی کا تلخ احساس تب ہوتا تھا جب اس کی اپنی اولاد اس اللہ کی دی ہوئی نعمت سے محروم رکھنے پر اپنی ہی ماں سے احتجاج کرتی ہے۔

خواتین میں آگاہی بڑھنے لگی تو کچھ نئے اور قانونی راستے اور طریقے بھی سامنے آنے لگے۔ اب خواتین کو زبردستی وراثت سے محروم کرنے کی بجائے ایک چالاک طریقہ یہ اپنایا کہ والدین یا بڑے بھائی اپنی بہنوں کے حصے کو پہلے ہی کسی مخصوص فرد کو ہبہ یا گفٹ کر دیتے ہیں اس طرح قانونی طور پر جائیداد پہلے ہی منتقل ہوچکی ہوتی ہے اور بہنوں کے پاس وراثت مانگنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔

پچھلے دنوں ایک صاحب نے اپنا وراثتی مکان بیچ کر ایک دوسرا مکان اپنے نام کی بجائے اپنے بیٹے کے نام سے خرید لیا تاکہ وراثت کا مسئلہ ہی ختم ہو جائے۔ نئی پراپرٹی تو خریدی ہی بیٹوں کے نام کی جاتی ہے۔ کئی لوگ آج بھی جعلی وصیت نامے تیار کر لیتے ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ مرحوم نے اپنی ساری جائیداد کسی خاص بیٹے یا عزیز کے نام کردی ہے۔ یوں خواتین کو اکثر قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جاتا ہے اور وہ طولالت کی باعث دستبردار ہونا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔

کچھ واقعات میں لڑکیوں کی شادی ہی نہیں کی جاتی یا پھر نکاح نامے میں حق وراثت سے دستبرداری کی شرط رکھ دی جاتی ہے۔ وٹے سٹے کی شادی اور کزن میرج بھی وارثت سے بچنے کا ذریعہ ہوتی ہے تاکہ جائداد خاندان میں ہی رہے۔ سماجی دباؤ اور جذباتی بلیک میلنگ ایک پرانا طریقہ ہے لیکن اب اس میں مزید نفسیاتی حربے شامل ہو چکے ہیں۔ بیٹیوں کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ بھائیوں سے محبت کرتی ہیں تو انہیں اپنے حصے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ والدین کی جانب سے بعض اوقات یہ دباؤ اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ خواتین ماں باپ اور بھائیوں کی محبت میں قربانی دیکر خود ہی دستبردار ہو جاتی ہیں۔

بڑے اور دولت مند خاندان اب جائیداد کسی نجی کمپنی، ٹرسٹ یا فاونڈیشن میں منتقل کرکے خواتیں کو حصہ مانگنے سے محروم کر دیتے ہیں اور بعض والدین یا بھائی جائداد کو شروع ہی سے مشترکہ ملکیت کے طور پر رکھ لیتے ہیں اور خواتیں کا قانونی حق سلب ہو جاتا ہے۔ جائیداد کے ریکارڈ میں ردوبدل بھی کرکے بھی محروم کرنا اور اگر خاتون ضد کرئے تو مقدمہ بازی میں الجھا دینا بھی معمول ہے۔

میرئے تجربے میں آیا ہے کہ والدین اپنی زندگی میں ہی اپنی تمام تر رقوم بیٹے یا بیٹوں کے نام اکاونٹ میں جمع کرتے رہتے ہیں یا ان کے ساتھ مشترکہ اکاونٹ کھول لیتے ہیں جو خود بخود انکی وفات کے بعد تقسیم نہیں کی جاسکتی یوں والدین کی جائداد کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھر کی بچت بھی بیٹوں کے حصے میں آجاتی ہے۔ والدین ایک جانب تو بیٹیوں کو اس جانب راغب کرتے ہیں کہ وہ بھائی کے حق میں دستبردار ہو جائیں جبکہ دوسری جانب انہیں اپنے سسرال سے اپنے خاوند کا زیادہ سے زیادہ حصہ لینے پر آمادہ بھی کرتے ہیں۔

سوال یہ ہےکہ یہ سب کچھ جس طریقہ سے ہو رہا ہے تو کیا والدین اور بھائیوں کے ساتھ ساتھ خواتین خود بھی اس کی ذمہ دار ہیں؟ بھائی کی محبت اپنی اولاد اور اپنے گھر کی محبت پر غالب کیوں آجاتی ہے؟ اور اس سماجی دباؤ سے کیسے نکلا جائے؟ یہ سوالات بہت اہم اور پیچیدہ ہیں کہ کیا خواتین خود اپنی وراثتی حق تلفی کی ذمہ دار ہیں؟ اگرچہ بنیادی طور پر اس کی ذمہ داری ایک مردانہ بالادستی پر مبنی سماجی ڈھانچے اور غیر منصفانہ روایات پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لیکن اکثر مواقع پر یہ خواتین بذات خود بھی اس صورتحال کو برقرا ر رکھنے میں غیر ارادی اور اردای طور پر کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ اپنے حق کے بارئے میں سب کچھ جانتی ہیں مگر سماجی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں۔ وہ یہ سوچتی ہیں کہ اگر انہوں نے نے وراثت کا مطالبہ کیا تو انہیں خود غرض، لالچی یا خاندان سے بغاوت کرنے والی سمجھا جائے گا۔

کئی خواتین بھائیوں کی محبت اور خاندانی وقار کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور قانونی کاروائی سے بھی گریز کرتی ہیں۔ لیکن اپنے خاوند، سسرال اور اپنی اولاد کی نظروں میں اپنا مقام کھو دیتی ہیں۔ تعلیم اور آگاہی کی کمی کی باعث اپنے وراثت کے حق اور اسکی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتیں اور جہیز کو وراثت تصور کر لیتی ہیں۔ جبکہ جہیز ہندوانہ رسم ہے جبکہ وراثت میں حصہ لینا اسلامی شریعت کا حکم ہے۔ شرعی اور قانونی طور پر جہیز وراثت کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ کہنا کہ خواتین مکمل طور پر اپنی حق تلفی کی ذمہ دار خود ہیں یہ یقیناََ ناانصافی ہوگی۔

دراصل یہ ایک گہری جڑین رکھنے والا سماجی ڈھانچہ ہے جس میں خواتین کو ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرنا سکھایا جاتا ہے اور وہ اپنے حقوق کے بارئے میں کھڑے ہونے سے ڈرتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ والدین کا جذباتی احترام بھی ہوتا ہے۔ گو وہ مکمل طور پر اپنی حق تلفی کی ذمہ دار نہیں لیکن اگر خاموش رہیں گی، دباؤ میں آکر اپنے حقوق سے دستبردار ہوتی رہیں گی اور واراثت کو خود سے غیر متعلق سمجھیں گی تو یہ ناانصافی ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں ان پرمسلط رہے گی۔ انہیں اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کے لیے بولنا ہوگا ورنہ ان کی محرومی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وہ خود ہوں گیں اور یقیناََ اپنی، اپنے گھر اور اپنی اولاد کی حق تلفی کیے لیے جوابدہ بھی وہی ہوں گی۔

یہاں والدین پر بھی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے مابین فرق نہ کریں۔ انہیں دیگر معاملات کی طرح وارثتی معاملات سے بھی آگاہ کریں کیوں کے وراثت کے معاملے میں بےانصافی صرف سماجی، معاشرتی، اخلاقی ہی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ ہے۔ جس کی روزقیامت جواب دہی ہوگی۔ وراثت میں ناانصافی کرنے والے والدین خود ہی سب سے زیادہ اس حق تلفی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور وہی اس بارئے میں خدا کے جواب دہ ہو نگے۔ مائیں، ساسیں، بڑی بہنیں جو نئی نسل کو یہی سکھاتی ہیں کہ بھائیوں سے وراثت مانگنا بدنامی اور شرمندگی کی بات ہوتی ہے وہ خود بھی اس نا انصافی کو نسل در نسل منتقل کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔

پاکستان میں خواتین کی وراثتی حق تلفی کے طریقے وقت کے ساتھ ساتھ مزید چالاک اور پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ہم واقعی خواتین کے حقوق کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں صرف دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدمات کرنے ہوں گے۔ ورنہ ہر مارچ کے مہینے میں خواتیں کا عالمی دن منانا صرف تقریبات اور نعروں تک محدود رہ جائے گا اور خواتین اپنی جائز وارثت سے محروم رہیں گی۔ ہمیں خواتین کو اس بارئے میں مکمل آگاہی دینا ہوگی۔ والدین کو تمام اولاد کو وراثت میں برابر اور شرعی حق دینا ہوگا۔ جہیز اور وارثت کو الگ الگ معاملہ سمجھنا ہوگا۔ بڑے بزرگوں اور خصوصی طور پر بزرگ خواتین کو اس بارئے میں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ تب ہی خواتین کے حقوق کا صرف یہ ایک چھوٹا سا مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔

Check Also

Baap Beeti Az Saqi Farooqi

By Mubashir Ali Zaidi