دہشتگردوں کا اسلام، پاکستان یا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں

جعفر ایکسپریس کو اغوا کرکے 21 معصوم مسافروں کو شہید کرنیوالے 33 دہشت گرد درندوں کو پاکستان سیکیوریٹی فورسز نے بالاخر جہنم واصل کر دیا۔ بلوچوں کے نام پر درندگی اورحیوانیت کا مظاہرہ کرنے والے بھیڑیوں کو نہ صرف بلوچستان کے عوام نے نفرت کا مستحق قرار دیا بلکہ دنیا بھر کی مہذب اقوام، ممالک اور افراد نے بھی ان کی قرار واقعی مذمت کی۔ البتہ تحریک انصاف اور بھارتی میڈیا ایک جیسا زہر اگلتے رہے۔
بلوچستان میں ہونے والی اس دہشت گردی کے پس پردہ محرکات میں سب سینمایاں محرک گوادر پورٹ اور وہاں موجود قدرتی وسائل ہیں۔ جن پر جاری معاشی اور کاروباری منصوبوں کی کامیابی سے صاف دکھائی دینے والے روشن مستقبل کی تکلیف ہے جو انسان دشمن اور پاکستان دشمن درندوں کے لیے برداشت کرنا ناممکن ہوچلا ہے۔ قدم قدم پر پاکستان سے دشمنی نبھائے چلے جانے والے بھارت کو ایک لمحہ چین نہیں کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوئی سازش نہ کرے یا دشمنی کا کوئی موقع ضائع کر دے۔ دوسری طرف ہمارے اپنے بھی بھارت سے کم ثابت نہیں ہو رہے جن کو اب اپنے کہتے ہوئے بھی ندامت محسوس ہوتی ہے۔
بھارت کی زبان سے زبان، الفاظ سے الفاظ اور لہجے سے لہجہ ملا کر جعفر ایکسپریس کے اغواء اور مسافروں کویرغمال بنانے کی ظالمانہ واردات میں انٹیلی جنس اداروں پر مذموم الزام تراشی کرنا اور ریاستی سکیورٹی اداروں کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا پھیلانا لاققِ افتخار کام سمجھ کر کیا گیا ہے۔ بلکہ سیاست سے بے بہرہ لوگ اقتدار کی خاطر صرف اسٹیبلشمنٹ کی دشمنی میں ہر اس کام پر بغلیں بجاتے ہیں جس میں پاکستان کو کوئی نقصان یا گزند پہنچتی ہے۔
یہ کہاں کی سیاست ہے جس میں یہ سب کھل کے سامنے آ چکا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ بہانہ، پاکستان نشانہ۔ جعفر ایکسپریس کے سانحے جیسی بہیمانہ واردات پر ان کے ٹائیگرز اور کی بورڈ وارئیرز بھی دہشت گردوں کی طرف جا کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ ملک کو کمزور اور عوام کو ذہنی طورپر مفلوج بنانے کے ایجنڈے پر قائم انسانیت دشمن عناصر مظلوموں کی لاشوں پر سیاست کرنے سے باز ہی نہیں آ رہے۔
ان حالات و واقعات میں عام شہریوں اور میڈیا سمیت ہر ادارے اور ہر طبقے کو لمحہ بہ لمحہ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ حالات کا معروضی جائزہ لے کر بڑی احتیاط سے بات کی جاے تاکہ ہمارے آپسی بحث مباحثے سے دشمن کو فائدہ نہ پہنچے۔ اس وقت جو کچھ انتشاری ٹولہ کر رہا ہے بھارت، افغانستان اور ان جیسے دشمن من و عن یہی چاہتے ہیں۔ اندریں حالات ہر باشعور اورمحب وطن شہری کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ کم از کم ہم کسی کے منفی پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔
کسے نہیں پتہ کہ انٹیلی جنس ادارے ریاست کی حفاظت کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ ان کا مقصد دشمن کے ناپاک عزائم کا پتہ چلانا اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔ تاہم، کبھی کبھار حالات ایسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں کہ کسی حملے یا واردات کی پیشگوئی کرنا یا قبل از وقوعہ دہشت گردی کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دہشت گرد گروہ یا دیگر دشمن عناصر زیادہ پیچیدہ اور تیز طریقوں سے کارروائیاں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انٹیلیجنس اداروں کو ان کے عزائم کا پتہ چلانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ ایسا یوکے، آسٹریلیا اور امریکہ جیسے دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر سوچا جائے تو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ہمیشہ پاکستان کی معاشی استعداد اور سیاسی توقعات سے بڑھ کر ہی کارکردگی دکھائی ہے۔ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے جتنے افواج پاکستان نے پیش کیے ہیں پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن قربانی اور ایثار کی اس سچی تاریخ کے اظہرالمن الشمس ہونے کے باوجود الزامات لگانا محض ذاتی مفادات کی جنگ ہے۔ اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا مقصد عوام میں مایوسی اور نفرت پیدا کرنا ہے۔ جب عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ سکیورٹی ادارے اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر رہے یا وہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں، تو اس کا براہ راست اثر ملک کی یکجہتی اور قومی مفاد پر پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دشمن عناصر کو فائدہ پہنچتا ہے جو ملک کے اندر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔
اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قوم کو ایک مضبوط اور متحد موقف اختیار کرنا ہوگا، دشمن کے پروپیگنڈے سے بچنا ہوگا اور اپنے سکیورٹی اداروں پر اعتماد رکھنا ہوگا، جو ہماری حفاظت کے لیے انتہائی محنت کر رہے ہیں۔ ان کے کام کو شک کی نظر سے دیکھنا نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ ہماری قومی یکجہتی اور امن کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔