Mirgi Ka Dora, Hum Kya Karen?
مرگی کا دورہ، ہم کیا کریں؟

آج شام گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے کمسن ایک بچہ، عمر بمشکل دس، گیارہ برس، اپنی سائیکل سمیت زمین پر گرا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں بری طرح مڑے ہوئے اور سائیکل کے اندر پھنسے تھے، منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ چند لمحوں کے مشاہدے میں اندازہ ہوا کہ یہ کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ مرگی کا دورہ (Epileptic Seizure) تھا۔
اس صورتحال میں دیکھنے والا انسان گھبرا بھی سکتا ہے۔ میں نے فوراً سائیکل سے اس کے ہاتھ پاؤں نکالے اور اردگرد کی وہ چیزیں ہٹا دیں جو مزید چوٹ یا نقصان کا باعث بن سکتی تھیں۔ اس کا سر زمین پر تھا، میں نے اس کے اسکول بیگ (بچہ ٹیوشن کے لیے جارہا تھا) کو سر کے نیچے تکیے کی طرح رکھا تاکہ جھٹکوں کے دوران سر ٹکرا کر زخمی نہ ہو۔
یاد رکھیں، جب کسی کو مرگی کا دورہ پڑے تو اسے روکنے یا پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جھٹکے مریض کے قابو سے باہر ہوتے ہیں اور زبردستی کرنے سے کوئی ہڈی ٹوٹ سکتی ہے یا مزید چوٹ لگ سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بہت ضروری ہے کہ کبھی بھی مریض کے منہ میں کچھ نہ ڈالیں۔ نہ پانی، نہ کوئی دوائی، نہ چمچ، نہ کوئی بوتل وغیرہ، یہ سب اقدامات جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ مریض کا گلا بند ہو سکتا ہے۔
بچہ مسلسل جھٹکے کھا رہا تھا، میں صرف اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ وہ کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہو۔ میں نے اندازاً مرگی کے دورے کا وقت ذہن میں محفوظ کر لیا، کیونکہ یہ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے کہ جھٹکے کتنی دیر تک جاری رہے۔ عام طور پر مرگی کا دورہ چند سیکنڈ سے لے کر دو یا تین منٹ میں رک جاتا ہے۔ اگر دورہ پانچ منٹ سے زیادہ رہے یا ایک دورے کے فوراً بعد دوسرا شروع ہو جائے تو یہ شدید ایمرجنسی ہے اور ایسے وقت فوراً ایمبولینس بلانی چاہیے۔
کچھ دیر بعد جھٹکے رک گئے اور بچہ ایک بھاری سانس کے ساتھ ساکت ہوگیا۔ اس وقت میں نے فوراً مگر آرام سے پہلو کے بل کروٹ پر لٹایا تاکہ اگر منہ میں جھاگ یا تھوک آئے تو وہ سانس کی نالی بند نہ کرے۔ یہ پوزیشن مریض کے سانس لینے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا رہا کیونکہ دورے کے بعد مریض فوراً ہوش میں نہیں آتا، وہ کچھ دیر کے لیے بے سدھ یا الجھن میں ہوتا ہے۔
چند لمحوں کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں لیکن بات کرنے کے قابل نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے ایک نمبر بتایا مگر وہ بند ملا۔ اس کے اسکول بیگ کو چھان مارا وہاں بھی کوئی رابطہ نمبر یا اتا پتا نہیں تھا۔ میرے ساتھ مزید دو تین راہگیر شامل ہوچکے تھے۔ میں بچے کو سائیکل سمیت قریبی بلڈنگز میں لے کر گیا، وہاں کے واچ مین سے پوچھا اور بالآخر ایک نے پہچان کر اس کی ماں کو خبر دی، اس کا باپ بھارت میں تھا اور ماں یہاں پر اکیلی تھی۔
اس سارے واقعے سے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہمیں سب کو مرگی یا کسی بھی ایمرجنسی کی بنیادی طبی امداد کا علم ہونا چاہیے، کیونکہ وہاں پر ایک راہگیر جوتا سنگھانے پر بضد تھا، ایک پانی پلانے پر اور ایک اس کو بازوؤں سے پکڑ کر اٹھانا چاہتا تھا۔

