Kya Ye Sab Waqai Bekar Hai?
کیا یہ سب واقعی بیکار ہے؟

انسان ہمیشہ سے سوال کرتا آیا ہے: میں کیوں زندہ ہوں؟ کیا میری جدوجہد کا کوئی مقصد ہے؟ وہ چاہتا ہے کہ کائنات یا کوئی طاقت اس کی محنت و مشقت کو تسلیم کرے، اس کی مناجات کا جواب دے، مگر کائنات اکثر خاموش رہتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسان کی جستجو اور کائنات کی بے نیازی ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں۔ البیر کامو اسی تصادم کو اپنی تصنیف دی مِتھ آف سیزفیس میں"بے معنویت" یا Absurdity کہتا ہے، یعنی وہ کیفیت جہاں انسان کے اندر کے سوالات کا شور اور دنیا کی گھمبیر خاموشی ایک نہ ختم ہونے والا تضاد پیدا کرتے ہیں۔
یہ تضاد انسان کو ایک کٹھن انتخاب پر لا کھڑا کرتا ہے. اگر زندگی بے معنی ہے تو کیا اسے جینے کا کوئی جواز ہے؟ یہیں موت کا خیال، زندگی کے خاتمے کی خواہش ایک حقیقی کشش اختیار کر لیتی ہے۔ کامو صاف الفاظ میں کہتا ہے: فلسفے کا سب سے بڑا سوال خودکشی ہے، باقی سب اس کے بعد آتے ہیں۔
اسی پس منظر میں یونانی اساطیر کا کردار کورنتھ کا بادشاہ سیزفیس سامنے آتا ہے۔ دیوتاؤں نے اسے سزا دی کہ وہ ایک بھاری بھرکم پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک دھکیلتا رہے، مگر جیسے ہی وہ اوپر پہنچے، پتھر دوبارہ نیچے لڑھک جائے۔ یہ عمل لامتناہی تھا، انتھک کوشش بار بار، نتیجہ ہمیشہ ایک سا، ناکامی۔ بظاہر یہ محض ایک بے مقصد مشقت تھی، مگر درحقیقت انسانی وجود کی عکاسی بھی۔ ہم سب اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی پتھر ڈھو رہے ہیں: خواب، ذمہ داریاں، ناکامیاں اور دکھ۔ دن ڈھلتا ہے، صبح لوٹ آتی ہے، خواب بنتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ گھن چکر لاحاصل سا لگتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ سب واقعی بیکار ہے؟ کامو کا جواب ہے: نہیں۔ اس کے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں کہ زندگی بوجھ ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس بوجھ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم اسے سزا سمجھیں تو یہ ابدی اذیت ہے، لیکن اگر ہم اسے قبول کر لیں تو یہی عمل معنی خیز بن جاتا ہے۔
کامو کہتا ہے کہ ہمیں سیزفیس کو خوش تصور کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ اپنی تقدیر کو قبول کرتا ہے اور جان لیتا ہے کہ یہی عمل اس کی اصل زندگی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر بار پتھر نیچے گرے گا، پھر بھی اسے دھکیلنے کا انتخاب کرتا ہے۔ یہی شعوری انتخاب اس کے وجود کی جیت ہے۔
اس فلسفے کا حسن یہ ہے کہ یہ ہمیں مایوسی سے نکال کر زندگی کی طرف لے آتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ زندگی کی خوشی کسی بڑے مقصد یا بڑی کامیابی میں نہیں، بلکہ اس جدوجہد میں ہے جو ہم ہر دن دہراتے ہیں۔ اپنی ذمہ داری، اپنی کوشش، اپنی لگن، یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔
یہی کامو کا پیغام ہے: زندگی بے معنی سہی، مگر اسی بے معنویت کو قبول کرنے میں اصل آزادی ہے۔ انسان جب مان لیتا ہے کہ کائنات اس کے خوابوں کے مطابق نہیں چلے گی، تب وہ اپنی طاقت اور خودی کو پہچان لیتا ہے۔ وہ جینے کا انتخاب کرتا ہے، چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو۔
موت کا انتخاب پتھر ڈھونے سے فرار ضرور ہے مگر یہ فرار کامیابی نہیں بلکہ مایوسی اور ناکامی ہے، زندگی کو بوجھ سمیت قبول کرنا ہی اصل جیت ہے۔ کائنات کی خاموشی ہمیں لاچار نہیں کرتی، بلکہ یہ آزادی دیتی ہے کہ ہم اپنی معنویت خود تخلیق کریں۔ جدوجہد ہی خوشی ہے اور پتھر ڈھونا با وقار زندگی۔ یوں سیزفیس کی طرح مسکراتے ہوئے
ناقابلِ شکست کوشش، انسان کی ابدی فتح بن جاتی ہے۔

