Kanton Bhari Qurbat, Hedgehog Ka Makhmasa Aur Schopenhauer Ka Falsafa
کانٹوں بھری قربت، ہیج ہاگ کا مخمصہ اور شوپنہار کا فلسفہ

سرد ہوا جب غار کے اندر سرایت کرتی ہے، جب یخ بستہ رات کی ٹھنڈ جسم کے ساتھ روح کو بھی چیرنے لگتی ہے، تو دو ہیج ہاگ (خارپشت) ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ جینا چاہتے ہیں، وہ حرارت چاہتے ہیں، ایک دوجے کے وجود کی گرمی چاہتے ہیں جو تعلق کی، قربت کی، زندگی کی علامت ہے، مگر جیسے ہی وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ان کے اپنے ہی کانٹے ایک دوسرے کے وجود کو زخمی کرنے لگتے ہیں۔ ایک عجیب کشمکش جنم لیتی ہے، بچنے کے لیے دور ہو جائیں تو ٹھٹھرتی سردی مار ڈالے اور قریب آئیں تو زخم سہنے پڑیں۔ یہی "ہیج ہاگ کا مخمصہ" ہے، قربت اور تکلیف کے درمیان جھولتا انسانی وجود۔
فلسفی شوپنہار نے اس نظریے کو انسانی تعلقات کے لیے علامتی طور پر بیان کیا۔ ہم سب محبت، تعلق اور اپنائیت کے متلاشی ہیں، لیکن جتنا قریب آتے ہیں، اتنی ہی جذباتی اور نفسیاتی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ لوگوں کی خود غرضی، انا اور جذباتی خارداری ہمیں تکلیف دیتی ہے، مگر دوری اور مکمل تنہائی بھی ایک اذیت ہے۔ یہی وہ انسانی المیہ ہے جسے شوپنہار نے "زندگی کا بنیادی رنج" کہا، جہاں ہم مسلسل تعلق اور تنہائی کے درمیان لڑتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلقات میں زخم لگنا فطری ہے۔ مگر دانشمندی اس میں ہے کہ ہم دوسروں کے "کانٹوں" کو سمجھیں اور اپنی موجودگی کو اس طرح ڈھالیں کہ تکلیف کم ہو اور گرمی زیادہ۔ ہر انسان کے اندر کمیاں کوتاہیاں ہیں، ہر تعلق میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں جو دلوں کو اذیت میں مبتلا کرتی ہیں، مگر اصل دانشمندی اس فاصلہ کو تلاش کرنے میں ہے جہاں نہ سردی ہو، نہ زخم۔
ہیج ہاگ کا مخمصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ قربت کا مطلب کامل ہم آہنگی نہیں، بلکہ دوسروں کے ساتھ ان کے نقائص سمیت جینا ہے۔ فاصلہ ہمیشہ تکلیف سے بچاؤ کا حل نہیں ہوتا، بعض اوقات زخم کھانا زندگی کا حصہ ہے۔ اصل دانائی توازن میں ہے، نہ اتنا قریب کہ خود کو زخمی کر لو، نہ اتنا دور کہ محبت کھو دو۔
یہی زندگی کا فلسفہ ہے۔ ہم سب اپنی ذات کے کانٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ہم حکمت، تحمل اور محبت کے ساتھ اس قرب کو جینے کا ہنر سیکھ جائیں تو شاید ہمارے تعلقات میں نہ صرف زندگی کی حرارت آئے بلکہ سکون بھی۔
یہی وہ فن ہے جو ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔