Ehsas
احساس

آپ سوشل میڈیا سے غائب ہوں چاہے اس کی کوئی بھی وجوہات ہوں لیکن کوئی ایسا شخص جو ان وجوہات کو جاننے کا خواہش مند ہو اور وہ کسی دور دراز ملک میں رہتا ہو یعنی آپ کے ملک میں رہتا بھی نہ ہو، مسافر ہو سفر میں رہتے اور گھومتے پھرتے ہوئے ایک دن وہ آپ کے ساتھ والے ملک میں کسی سرحد پر آن پہنچتا ہے اور وہاں اس کو سب سے پہلے آپ کا خیال آتا ہے کہ یار ساتھ والے ملک میں نا ایک فلاں فلاں بندہ ہے میرا جاننے والا ہے، مگر اس کے ساتھ کوئی ذاتی نوعیت کے تعلقات بھی نہیں ہیں کوئی خاندانی یا خون کا رشتہ بھی نہیں ہے، پیسے کا معاملہ یا کاروباری لین دین کا معاملہ بھی نہیں۔
لیکن دل سے دل کو جو راہ نکلتی ہے وہی ایک مہربان احساس ہے جو ماورائے سود و زیاں بلاوجہ ملاتا ہے اور اسی احساس کے تابع آپ سے رابطہ کرتا ہے، ہیلو یار میں آپ کے ساتھ والے ملک میں ہوں، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو میں آپ سے ملنے آ سکتا ہوں، یارو یہ کچھ چھوٹی سی بات تو نہیں ہے کم از کم میرے لیے تو بہت بڑی بات ہے اور آپ چاہے جس طرح کے بھی معاملات میں پھنسے ہوں یا جو بھی مسائل چل رہے ہوں، آپ کہیں بھائی مرحبا، سر انکھوں پر، آپ آ جائیں نہیں تو میں آ جاتا ہوں اور وہ شخص وہاں سے چلتا ہے، ایک سرحد نہیں کئی سرحدوں کو عبور کرتا ہوا آپ کے پاس آپ کے ملک میں آ جاتا ہے اور آپ کو بتاتا ہے بھائی صاحب میں پہنچ گیا ہوں آپ مجھے بتائیں کہاں پر آؤں اور پھر ساتھ ہی کہتا ہے یار کھانا نا میں کھلاؤں گا یہ کیسی عجیب بات ہے۔
ایک بندہ کسی دوسرے ملک سے آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ کو کہتا ہے بھائی کسی پسند کی جگہ پہ چلیں کیا کھانا ہے آپ مجھے بتائیں میں آپ کی دعوت کرنے آیا ہوں، یار یوں تو ترجمان ہوں لیکن میں اس احساس کا اس محبت کا ترجمہ کرنے سے قاصر ہوں، پھر وہ شخص آتا ہے ملتا ہے اور یوں ملتا ہے جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ گلے ملنا وہ واحد طریقہ ہے جس میں کسی کو جتنا بھی دبایا جائے اتنا ہی لطف بڑھتا ہے۔
ہم نے کھانا کھایا اور کھانا کیا ہی لذت بھرا تھا، ریسٹورنٹ کی جگہ کتنی زبردست تھی، یہ بس قدرتی ہی چلتے چلتے اچانک ہی ہم کو مل گئی، وہ دل کو جیسے دل سے راہ ہوتی ہے نا ویسے ہی مہمان کے لیے اللہ میاں نے کوئی ایسا بندوبست کر رکھا تھا کہ ہم نے دو تین گلیاں گھومیں اور ہمارے سامنے ایک زبردست قسم کا ریسٹورنٹ تھا، کھانے کے بعد جو انہوں نے چائے سپیشل قسم کی بنا کر دی خالص پاکستانی سٹائل کی چائے۔ اس کے بعد ایک اور حیران کر دینے والا لمحہ تھا کہ مہمان مسافر کہنے لگے بھائی میں آپ کے لیے نا کپڑے لے کر آیا ہوں او یارو یہ ایک بڑا ہی عجیب قسم کا لمحہ تھا۔
دوسرے ملک سے کسی دوسرے ملک میں دونوں یہ باہر کے ممالک میں باتیں چل رہی ہیں پاکستان کی باتیں نہیں ہیں یار کپڑے لے کر آئے ہیں، میرے لیے بڑا عجیب سا وقت تھا یارو یہ کیسا تحفہ ہے وہ کہتا بھائی میں آپ کے لیے کپڑے لے کے آیا ہوں، تو مجھے وہ بات یاد آگئی جو ایک دفعہ میں نے فیس بک پر لکھی تھی کہ ہم نا صرف اتنی قدرت رکھتے ہیں یا اتنے ہی ہم اپنے اوپر قادر ہیں کہ ہم اپنا پیرہن بدل سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس بدلنے کے لیے کچھ نہیں ہے تو وہ بات شاید ان کے ذہن میں بھی تھی کہ ہم ایک دوسرے کی تو قسمت نہیں بدل سکتے مقدر نہیں بدل سکتے۔
لیکن پیرہن بدل سکتے ہیں، بڑے زبردست قسم کے برانڈڈ خوبصورت کپڑے لے کے آئے اور یہی مختصر سی ملاقات تھی، الوداعی گلے ملے اور چلتے بنے یار ایک ملک سے دوسرے ملک میں اتنا وقت نکالنا میرے لیے بڑا ہی حیران کن ہے اور میں تو کہتا ہوں شکریہ یا مہربانی والے الفاظ ایسے معاملات میں پورے نہیں پڑتے بلکہ کم پڑ جاتے ہیں تو بہرحال ڈاکٹر محمد نقاب خان امبیلہ آٹومیشن سروس والوں کا میں صمیم قلب سے شکر گزار ہوں۔