Asal Roop
اصل روپ

ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ فلاں بڑا معتبر یا خاندانی شخص ہے۔ یہ معتبر یا خاندانی شخص ہوتا کیا ہے؟ کیا یہ کسی کی چال ڈھال، لباس، خوراک، مال و دولت، وراثتی منتقلی یا پھر ظاہر سے منسوب ہے؟ یا پھر باطن اور سلوک کا معاملہ ہے؟ باطن جس میں انسانی جوہر پوشیدہ ہے، وہ جوہر، وہ صفت، وہ وصف جس کا ٹھکانہ قلب اور روح ہے، جو برتاؤ یا سلوک کا منبع ہے؟
دراصل ہر انسان کے اندر ایک صفت ایسی ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ گُن اچھا بھی ہوسکتا ہے یا پھر معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی فقیر ہو مگر دل کا بادشاہ ہو، ہوسکتا ہے کوئی بادشاہ ہو مگر دل کا فقیر ہو۔
دراصل نیک طینت روح جس کے سودے دل سے پیوستہ ہوتے ہیں وہ جوہر ایسا ہوتا ہے جسے نہ تو آتش فشاں کی آگ پگھلا سکتی، نہ وہ برف زاروں میں چٹخ سکتا ہے، وہ جوہر خالص دھات کی مانند ہوتا ہے جو حالات، واقعات، یا مقامات کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتا۔
منفرد خواص والا شخص ان ریگستانوں میں سے گزرتا ہے جہاں سورج زمین کو توڑ کر ان گنت ذروں میں تبدیل کردیتا ہے، اس کا پالا ان طوفانوں سے پڑتا ہے جو سمندر کی جولانیوں میں آسمان کو نگل جاتے ہیں، مگر وہ جوہر ان قیامتوں میں بھی باقی رہتا ہے۔ غیر متزلزل اور غیر تبدیل شدہ۔
ایک دفعہ کسی بھولی بسری سر زمین میں ایک شخص رہتا تھا۔ وہ نہ بادشاہ تھا نہ جنگجو، نہ عالم اور نہ ولی۔ وہ محض ایک ایسا آدمی تھا جو اندھیرے میں لالٹین کی طرح مہربانیاں کرتا تھا۔
وہ جب انتہائی غریب تھا، اس کی پھٹی ہوئی پوشاک کی جیب میں بھوک کے سوا کچھ نہیں تھا، انتہائی بھوک کے عالم میں اس کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور اس نے وہ لقمہ بھی اپنے جیسے کسی دوسرے بھوکے کو کھلا دیا۔
جب وہی شخص امیر ہوا، اس کے ہاتھوں سے سونا تقسیم ہو رہا تھا، تب بھی وہ اپنے دسترخوان پر بیٹھ کر اسی عاجزی کے ساتھ انہی مساکین کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔
علی ابن ابی طالبؑ کا قول ہے کہ آدمی کا اصل روپ دولت اور اقتدار ملنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
ایک دن گاؤں میں زبردست آگ بھڑک اٹھی اور وہ آگ اپنے راستے میں موجود ہر چیز کو کھا گئی۔ لوگ اپنی جان بچانے کو دوڑے، جو کچھ وہ لے سکتے تھے یا جو کچھ ان کے ہاتھ لگا وہ لیتے گئے، ہر شخص اپنی پسند کی چیزوں کو بچاتے ہوئے جل رہا تھا۔ وہی شخص خاموش کھڑا شعلوں کو دیکھتا رہا، لوگ چلا رہے تھے، تم کتنے بیوقوف ہو، تم کیا کر رہے ہو؟ تم اس موقعے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے، تم اور تمہارا سامان جل جائے گا! تم اپنے اور سامان کے بچاؤ کے لیے کچھ کرتے کیوں نہیں ہو؟
اس طرح کی چیخ و پکار سن کر وہ صرف مسکرا رہا تھا۔ پھر وہ گویا ہوا "آگ صرف کمزور چیزوں کو بھسم کر سکتی ہے۔ جو چیز مضبوط ہے وہ حدت میں زیادہ چمکتی ہے"۔
اگر آگ مجھے جلا نہ سکی تو میں کسی نئی سرزمین پر نئی دنیا بسا لوں گا، نیا سامان پیدا کرلوں گا، مگر میرا وہ جوہر جو ایمانداری میں گندھا ہے، اسے کسی بھی زمین میں اگایا نہیں جاسکتا، کسی بھی منڈی سے خریدا نہیں جاسکتا، میں یہاں سے صرف اپنا ظرف اپنا اندرونی جوہر بچا کر لے جانا چاہتا ہوں۔
اور تب ہی لوگوں نے سمجھا: کچھ دھاتیں پگھل بھی جائیں تو ان کا اصل تبدیل نہیں ہوسکتا۔ کچھ دل پاکیزہ رہتے ہیں چاہے وہ زنجیروں میں ہوں یا تاج میں۔۔
حضرت یوسفؑ جب زندان میں تھے تو ان کے ساتھ دوسرے قیدی بھی تھے، اسیروں کے خوابوں کی تعبیر بتا کر ان کا حوصلہ بڑھاتے، تقدیر اور تدبیر کے دھاگے سلجھاتے، وہ محض اپنے لفظوں سے قیدیوں اور ان پر اختیار رکھنے والوں کی روحوں کو شفا بخشتے تھے۔
تو قیدی جب تعبیر جاننا چاہتے تھے تو اسی زندان میں قیدی نے کہا۔۔
"انا نراك من المحسنين"
اے یوسف تو تو احسان کرنے والا بھلا آدمی معلوم ہوتا ہے۔
اور پھر وقت اور تقدیر نے پلٹا کھایا، قیدی عزیز مصر کی مسند پر جا بیٹھا، وہ مصر جسے ام الدنیا کہا جاتا ہے، عزیز مصر کا مطلب اس وقت کے زمینی خزانوں کا مالک۔۔
اور جب یوسفؑ کے اختیار میں زمین کے خزانے تھے:
تو وہ بھائی جو عزیز مصر کی اصلیت سے واقف نہ تھے، ان کے الفاظ قرآن بیان کرتا ہے۔۔
"انا نراك من المحسنين"
زمان و مکان تبدیل ہوگئے، زندان کے قیدی سے مصر کے اربابِ اختیار بن گئے، اس الٹ پلٹ کے پھیر میں حیثیت، مرتبہ سب کچھ بدل گیا، مگر یوسفؑ کا اصل جوہر جو ان کی خصلت، ان کا وصف تھا وہ غیر متزلزل، غیر تبدیل شدہ رہا۔ ان کے برتاؤ کو دیکھ کر لوگوں کے الفاظ و احساسات ایک جیسے ہی رہے۔ یوسفؑ کو تو ادراک تھا کہ حالات انسان کی ظاہر حالت، منصب و مرتبے کو تشکیل دے سکتے ہیں، لیکن صرف ایک انسان ہی ایسا ہے جو اپنے کردار کو تشکیل دے سکتا ہے۔