Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Aik Lamha Jo Thehar Gaya

Aik Lamha Jo Thehar Gaya

ایک لمحہ جو ٹھہر گیا

اپنے حصے کی تالیاں سنے بغیر اس دنیا سے مت جاؤ، بالخصوص وہ تالیاں جو خاص طور پر آپ کے لیے ہیں۔ مجھے ایک لمحہ شیئر کرنے کی اجازت دیں جو میرے ساتھ ٹھہر گیا ہے، یہ لمحہ میرے دوست کے بیٹے کی شادی کا ایک منظر ہے جس نے مجھے ٹرانس میں لے رکھا ہے۔

یہ لمحہ اپنے عروج سے پہلے تک کسی دوسرے لمحات طرح ایک عام دن تھا، جیسا شادی کی تقریبات میں ہوتا ہے کہ جب دولہا اور دلہن اسٹیج پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ مگر اس دن سب کچھ بدل گیا تھا۔ تقریب کے لیے سجایا گیا ہال، جو دیدہ زیب قمقموں اور فن پاروں کا شاہکار تھا، اچانک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ ہجوم میں ایک بے چینی پھیل گئی، اعصابی تناؤ والی سرگوشیاں ابھرنے لگیں، کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ اور پھر، جادو کی طرح، ایک اسپاٹ لائٹ اندھیرے کو چیرتی ہوئی، مرکزی داخلی دروازے کو فوکس کرتی ہے۔

اسی اثناء میں مدھم، مدھر سریلی موسیقی ابھرنے لگی اور روشنی کے تعاقب میں دولہا اور دلہن اندر داخل ہوئے، جو روشنی میں نہا رہے تھے، ان کی خوبصورتی اس سب سے زیادہ تھی جو دیکھی جا سکتی تھی۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے، ان کی چال باوقار تھی، گویا ہوا نے بھی اپنا سانس روک رکھا تھا۔ موسیقی کے سوا ہال میں گہری خاموشی کے ساتھ گردنیں موڑے ہر آنکھ ان پر مرکوز تھی جب وہ روشن راہداری سے گزر رہے تھے، بانہوں میں بانہیں ڈالے محبت کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔

جب ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے وہ اسٹیج پر پہنچے تو ساز تھم گیا اور نئی دھنوں کے ساتھ نغمہ ابھرنے لگا، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، جوڑے نے رقص شروع کر دیا، ایک بے ساختہ، شاندار رقص کا مظاہرہ، ایسا دلفریب رقص جیسے کہ آپ پیرس یا ریو کی تقریب میں دیکھتے ہیں۔ جرات مندانہ مگر غیر روایتی، محبت کے جذبے سے بھرا ہوا، ایک ایسا رقص تھا جس نے ان کے خاص دن کے اہتمام کو چار چاند لگادیے تھے۔

ہجوم دیکھتا رہا، سانس بند، کچھ آپس میں سرگوشی کر رہے تھے، اس سب غیر متوقعیت پر حیران تھے۔ پھر بھی، جیسے جیسے موسیقی مدھم ہوئی اور تمام روشنیاں جل اٹھیں تو جادو ختم نہیں ہوا۔ اس کے بعد چند لمحوں تک خاموشی رہی، جیسے وقت خود ہی رک گیا ہو۔ پھر جیسے ہی اچانک تالیاں گونج اٹھیں۔ سب کھڑے ہوگئے اور مبارکباد کے نعروں سے ہال گونج اٹھا۔ ہر شخص اس بندھن کی غیر معمولی کیمسٹری اور بانڈنگ سے متاثر لگ رہا تھا۔

اس لمحے میں، میں نے محسوس کیا: ہم سب اپنی پہچان کے لمحے، اپنی اپنی تعریف کے مستحق ہیں، چاہے وہ کسی بھی شکل میں آئے۔ اس جوڑے کی طرح جس نے اپنے ولیمہ کی تقریب میں رقص کیا تھا، کیوں نہ ہم سب ایک ایسی زندگی گزاریں جو یہ پہچان حاصل کرے، صرف دوسروں کے لیے تالیاں بجانے میں نہیں، بلکہ اپنے حصے کی تالیاں سننے کے لیے بھی۔

Check Also

Oman Aur Pakistani

By Khateeb Ahmad