Sooraj Par Landing
سورج پر لینڈنگ
"سورج ایک درمیانی سائز کا ستارہ ہے، جو ہماری زمین سے تقریبا 149 ملین کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اتنی دوری کے باوجود ہم اس کی گرمی اور تپش کونا صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ اس سے مختلف کام بھی لیتے ہیں۔ سورج کی گرمی کیا ہوتی ہے؟ یہ عرب میں رہنے والے ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔۔ سورج کی یہ گرمی "ہائیڈروجن" کے ایٹمز ہیلیم کی ایٹمز میں تبدیل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔۔ آسمان پر جتنے بھی ستارے آپ دیکھ رہے ہیں ان سب میں یہی عمل ہوتا ہے لیکن ہم سے بہت دور ہونے کی وجہ سے انکی "گرمائش" ہم محسوس نہیں کرپاتے۔ لیکن وہ بھی"سورج" ہی کی طرح آگ اُگل رہے ہیں۔
چونکہ سورج تک ہماری "ٹیکنالوجی" آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔ اس وجہ سے ناسا نے 2018 میں"پرکر سولر پروب" نامی ایک ایسا "اسپیس جہاز" بنایا، جو ہمارے "سورج" کے قریب جاسکے، تاکہ ہم سورج کے متعلق زیادہ بہتر طریقے سے جان سکیں۔ چونکہ ہمارے سورج کا ٹمپریچر پانچ ہزار سنٹی گریڈ ہے، جس کی وجہ سے اسکے قریب جانا اور اس کی گرمی کو برداشت کرنا ایک ناممکن سی بات ہے، لیکن یہ "خلائی جہاز" پرکر سولر پروب جس دھات سے بنایا گیا تھا وہ 2600 فارن ہائیٹ تک گرمی برداشت کرسکتا تھا۔ مذکورہ "خلائی جہاز" پرکر سولر پروب میں ناسا کے "انجنئیرز" نے مختلف قسم کے دھات استعمال کئے، جن کا نقطہ پھگلاؤ بہت زیادہ ہے۔
یہ سپیس جہاز یعنی پرکر سولر پروب 12 اگست 2018 کو سورج کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ ناسا کا واحد اسپیس جہاز ہےجو اپنی رفتار تقریبا چھ لاکھ 90 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ تک بڑھا سکتا ہے، اور یہی اس کی سب سے بڑی "خوبی" ہے۔ لیکن اس وقت "پارکر سولر پروب" صرف پانچ لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔۔ تقریبا پانچ سال قبل لانچ کیے گئے، اس خلائی جہاز کا مقصد سورج کے سامنے سے قریب سے قریب تر ہوکر گزرنا ہے۔۔ اس خلائی جہاز نے سورج کے گرد اب تک کئی چکر کاٹے ہیں، اور تاحال تک موشن میں ہے۔
ناسا فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ پرکر سولر پروب نے سورج کو تقریبا ایک کروڑ اور تیس لاکھ کلو میٹر قریب سے دیکھا ہے۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔۔ اس پرکر سولر پروب نامی جہاز کا انجنئیرز"سٹوارٹ بیل" کے مطابق یہ خلائی جہاز 5 گھنٹوں کے دوران تقریبا تین مرتبہ اس لکیر کے اوپر اور نیچے سے ہو کر گزرا، جس سے سورج ایک کروڑ اور تیس ہزار کلو میٹر پر ہے۔ ناسا کا مزید کہنا ہے، کہ سال 2025 میں اُسے سورج سے 70 لاکھ کلومیٹر فاصلے تک پہنچ جانا چاہیے۔ اس نے سورج کے سب سے خطرناک علاقے میں بھی ایک بار غوطہ لگایا ہے جن کو "کورونا" کہا جاتا ہے۔ جہاں"ٹمپریچیر" بہت ہی زیادہ ہوتا ہے اس وقت پارکر سولر پروب کی رفتار تقریبا چھ لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ یعنی انکو ہم ننگی آنکهوں سے دیکھ نہیں سکتے۔
پارکر سولر پروب کو جن چیزوں سے بنایا ہے ان پر ہمارے گھروں کی آگ بالکل بھی اثر نہیں کرتی۔۔ سولر پروف کا شیلڈ سپیشل کاربن مرکب سے بنایا گیا ہے، اور اس شیلڈ کو سورج کی سمت میں نصب کیا ہے تاکہ "سورج" کی درجہ حرارت مکمل پارکر سولر پروب کو "نقصان" نہ پہنچائے۔ اس "شیلڈ" کی موٹائی تقریبا گیار سینٹی میٹر ہے۔
سورج پر تحقیق کے ذمہ دار ادارہ "ناسا" ڈائریکٹر کا کہنا ہے۔ جسطرح چاند پر کھڑے ہونے سے ہمارے سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ یہ کیسے وجود میں آیا، ویسے ہی سورج کو چھونا انسانیت کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ جس سے ہمیں ہمارے قریب ترین "ستارے" اور نظام شمسی پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔ پارکر سولر پروب ناسا کا اب تک کا بنایا گیا سب سے تیز رفتار مشن ہے۔
یہ بندوق کی "گولی" سے سو گنا تیز ہے۔ اس سے آپ باخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتنا تیز ہوگا۔
اس خلائی جہاز کی رفتار حیران کُن حد تک تیز ہے۔ یہ پانچ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ "سورج" کی فضا میں فوراً داخل ہو کر فوراً باہر نکال آئے، اور اس دوران سورج کی گرمی سے بچانے والی اپنی موٹی شیلڈ کے پیچھے چھپ جائے اور اپنے مختلف آلات کے ذریعے اعداد و شمار اکٹھا کرے یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس وجہ سے ناسا سائنس دان پہلے دور سے سورج کا مشاہدہ کرتے ہیں، تاکہ 2025 تک بہت سارا "ڈیٹا" اکٹھا ہوجائیں۔۔
رواں سال اپریل 2022 میں پارکر سولر پروب نے ایلفوین نامی "لکیر" کو بھی عبور کیا، جو سورج کی بیرونی فضا کورونا کی باہری حد ہے۔۔ ناسا ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سورج کی کششِ ثقل سے "بندھا" رہنے والا مواد کشش ثقل سے خود کو چھڑا کر اسپیس میں باہر نکل جاتی ہیں۔
اسکے علاوہ پارکر سولر پروب نے ان پانچ سالوں میں سورج کی سطح فوٹوسفیئر سے ایک کروڑ تیس لاکھ کلومیٹر اوپر اس لکیر کو محسوس کیا۔ سورج کی "فوٹو سفئیر" ہم زمین سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے سٹوارٹ بیل کے مطابق خلائی جہاز کے "ڈیٹا" سے معلوم ہوتا ہے، کہ یہ پانچ گھنٹوں کے دوران تین مرتبہ اس لکیر کے اوپر اور نیچے سے ہو کر گزرا۔۔ جو ہم سب کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔
ناسا سائنس دانوں کو کورونا کی اس بیرونی فضا نے حیرت زدہ کیے رکھا ہے کیونکہ یہاں پر "وقوع پذیر" ہونے والی اکثر چیزوں سمجھ سے باہر ہے سورج کی سطح یعنی فوٹوسفیئر پر درجہ حرارت چھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے لیکن کورونا میں درجہ حرارت دس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسی حصے میں برقی چارج رکھنے والے ذرات جیسے الیکٹرونز، پروٹونز وغیرہ کی رفتار اچانک آواز کی رفتار سے بھی تیز ہوجاتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ فی الحال ابھی تک ایک معمہ ہے۔ اور ان کو حال کرنے کے لیے ہمیں 2025 تک اتنظار کرنا ہوگا۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اور ہم کہاں ہے؟ ہم دنیا سے کیوں پیچھے ہیں؟ ہم نے ان لوگوں کا مقابلہ کرنا بھی ہے؟ یا صرف دور سے تماشا دیکھیں گے"۔۔