1.  Home/
  2. Blog/
  3. Teeba Syed/
  4. Zamana e Talib Ilmi

Zamana e Talib Ilmi

زمانۂ طالبعلمی

کل ایک دہائی کے بعد اپنے سکول اور کالج میں اپنی استاتذہ کو ملنے کے لیے اور اپنی کتاب دینے کے لیے جانا ہوا۔ میں دعا کر رہی تھی کہ مجھے کالج میں وہ لیکچرار نظر نہ آئیں جنہوں نے مجھے آج سے ایک دہائی پہلے بہت بری طرح ڈانٹا تھا جبکہ غلطی بھی میری نہیں تھی۔ اس ایک واقعہ کی وجہ سے میرا کالج سے دل اچاٹ ہوگیا تھا۔

کل جب میں کالج گئی تو سب سے پہلے انہوں نے ہی مجھے دیکھا اور اندر فیکلٹی روم کی طرف بلایا۔ میں وہاں گئی تو مادام نے والہانہ انداز میں مجھے خوش آمدید کہا۔ ان کی اس محبت اور شفقت نے ایک پل میں میرے دل سے ماضی کی ڈانٹ کے اثرات کو مٹا دیا۔ اس کی جگہ محبت نے لے لی۔

جن دو ٹیچرز سے میں ملنے گئی تھی وہ چھٹی پہ تھیں اور باقی سب کالج چھوڑ کر جا چکی تھیں۔ میری اس مادام نے دوسری لیکچرارز کے سامنے مجھے کچھ یوں متعارف کرایا کہ یہ ہمارے کالج کی بہت کرئٹیو سٹوڈنٹ تھی، کالج کی طرف سے ہر debate and essay competition میں جایا کرتی تھی۔ بہت باغی لڑکی ہوا کرتی تھی اور اس وقت کی پرنسپل صاحبہ کو ان مادام نے ہی مشورہ دیا تھا کہ میرے باغی پن کو قابو کرنے کے لیے مجھے کالج میں ہونے والے پروگراموں کی ذمہ داری دیا کریں۔ اور یہ ذمہ داریاں دی گئیں، بہت سارے پروگراموں کی کمپیرنگ کیا کرتی تھی، کالج میں ایک سٹوڈنٹ لٹریری سوسائٹی کی بنیاد بھی میں نے رکھی تھی۔

پھر میں نے مادام کو اپنی کتاب پیش کی تو مادام کے چہرے پر آنے والی خوشی نے مجھے احساس دلا دیا کہ استاد اور ماں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جتنا مرضی ڈانٹ لیں، پیار اپنی جگہ بدستور دل میں قائم رہتا ہے۔

دوسری مادام نے میری کتاب کی ورق گردانی کرکے کہا کہ آپ نے ابھی سے اتنی بڑی بڑی باتیں لکھ ڈالی ہیں تو مادام نے جواب دیا کہ یہ کالج کے زمانے سے ہی ایسی تھی۔ مادام کے میرے لیے یہ تعریفی کلمات بالکل غیرمتوقع تھے۔

آج پھر دوبارہ اپنی ان دو مادام سے ملنے گئی جن سے میں نے کیمسٹری اور بائیولوجی پڑھی تھی۔ کیمسٹری والی مادام اب کالج کی پرنسپل ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی طرف سے بھی والہانہ محبت ملی۔ بائیولوجی والی مادام سے آدھا پونا گھنٹہ بیٹھک رہی۔ دونوں مادام میری کتاب اور میرے لکھنے کے سفر کے متعلق جان کر بہت خوش ہوئیں۔۔ اور مجھے بتانا تھا کہ ان کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم دینے والی سٹوڈنٹ کو زندگی نے بہت سیدھا کیا۔ ویسے میرے ٹیچرز کی ہمت اور داد کو سلام تھا کہ مجھ جیسے دماغ کو برداشت کیا تھا انہوں نے۔

سابقہ پرنسپل صاحبہ نے مجھے بلایا تھا اور مجھ سے پوچھا تھا کہ وہ میرا کیا علاج کریں؟ میں اتنا تنگ کیوں کرتی ہوں؟ آئے روز میرے سیاپے ان کے دفتر تک پہنچا کرتے تھے۔ مجھے اپنے جوابات یاد نہیں ہیں لیکن یہ یاد ہے کہ مادام نے مجھے ترجمے والا قرآن گفٹ کرنے کی بات کی تھی جو میں دوبارہ نہ ملنے کی وجہ سے حاصل نہ کر سکی لیکن ان کی اس بات کے بعد میں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

میرے سکول و کالج کی چپڑاسی آپا خورشید۔۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور ایک جادو کی جپھی سے نوازا۔۔ ان سے مل کر بہت زیادہ اچھا محسوس ہوا۔ پھر میں نے وہ کمرہ جماعت دیکھے جہاں ہمارے لیکچرز ہوتے تھے۔۔ ان کو دیکھ کر ایک دہائی پیچھے چلی گئی تھی اور سب کلاس فیلوز یاد آ گئیں۔

پھر مڈل اور پرائمری کی ٹیچرز کو ملی، اور ان ٹیچرز کو بھی ملی جن سے میں نے پڑھا نہیں تھا لیکن وہ میرے سٹوڈنٹ دور کی ٹیچرز تھیں اور سب ہی مجھے میرے نام اور چہرے دونوں سے پہچانتی تھیں، میرے اچھے اور برے قصے سب کو یاد تھے۔ میں سکول اور کالج کے زمانے میں بلا کی شریر تھی یہاں تک کہ میرا ایک دور میں کالج میں داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔۔ اشتہاری ہوگئی تھی میں!

پڑھائی میں ٹھیک تھی اس لیے ٹیچرز مجھے برداشت کرتے تھے لیکن برداشت کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔

مگر آج مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ تقریباً سب استاتذہ مجھے نئے اساتذہ سے یہ کہہ کر متعارف کرا رہے تھے کہ یہ ہمارے ادارے کی Shining اسٹوڈنٹ تھی جبکہ میں نے بورڈز بھی ٹاپ نہیں کئے۔

میری کتاب کی خوشی میرے سکول و کالج کے ٹیچرز سے لے کر گیٹ پہ کھڑے گارڈز تک، سب کو ہوئی۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے شریر، باغی، ستا دینے والے سٹوڈنٹ سے کوئی اس قدر محبت کیسے کر سکتا ہے؟

آخر میں سب سے زیادہ دکھی کر دینے والی بات معلوم ہوئی کہ میری پہلی سے پانچویں جماعت تک کی ٹیچر، میری ماں، میری کئیر ٹیکر ان کی پچھلے سال وفات ہوگئی، میں ابھی بھی یقین نہیں کر پا رہی کہ وہ دنیا میں نہیں رہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد میں ان سے ملتی رہی ہوں، لیکن ان کی وفات کا مجھے سرے سے علم ہی نہ ہونا مجھے زخمی کر گیا ہے۔ مسز آفتاب میری پہلی محبت تھیں، وہ تو مجھے ایف ایس سی میں دیکھ کر ہی میری بلائیں لیا کرتی تھی کہ میں اتنی بڑی ہوگئی۔

یونیورسٹی اور پروفیشنل دور میں ان سے میری ملاقات ہوتی رہی ہے لیکن پچھلے تین چار سال سے ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔۔ میں ہمیشہ ان کی دعاؤں میں رہا کرتی تھی، میں ان کی سب سے لاڈلی سٹوڈنٹ تھی، میری کالج کی شکایتیں بھی ان کے پاس جایا کرتی تھیں۔ اللہ ان کو اگلے جنم میں بہت زیادہ نوازے اور مجھے ان کی خدمت کرنے کا موقع دے۔ آمین

یہ کہانی میں آپ کے لیے اس لیے لکھ رہی ہوں کہ آپ جو مجھے بہت پرفیکٹ سمجھتے ہیں میری زندگی کا یہ دور اور میری شخصیت کا یہ روپ بھی دیکھ لیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں جب مر جاوں تو مجھے بس سچ لکھا جائے، میں ایک انہتائی امپرفیکٹ انسان ہوں۔۔ اتنی کامل نہیں ہوں جتنا آپ مجھے سمجھتے ہیں۔

میں ٹیڑھی میڑھی سی سادہ تحریر ہوں

الجھ جاتے ہیں مجھے سب سلجھانے والے

Check Also

Come On Yar

By Mirza Yasin Baig