Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Teeba Syed
  4. The God Of Small Thing

The God Of Small Thing

دا گاڈ آف سمال تھنگ

ارون دھتی رائے کا یہ پہلا ناول ہے، جس نے اشاعت کے فوراً بعد ہی عالمی سطح پر ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کی۔ یہ ناول بظاہر ایک خاندان کی کہانی ہے، لیکن اس میں چھپے ہوئے موضوعات، معاشرتی تضادات، ذات پات، نوآبادیاتی اثرات اور انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو جس گہرائی سے بیان کیا گیا ہے بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔

کہانی کیرالہ، بھارت کے ایک قصبے میں جڑواں بہن بھائی ایستا اور راحیل کے گرد گھومتی ہے، جن کا بچپن ایک دلخراش واقعے کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان کی ماں امّو، سماج کے اصولوں کے خلاف جا کر ایک دلت (نیچ ذات کے) شخص ویلوٹھا سے محبت کرتی ہے اور اسی "ممنوعہ" محبت کی وجہ سے خاندان پر عذاب ٹوٹ پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خاندان بکھر جاتا ہے اور بچے اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ناول حال اور ماضی کے درمیان چلتا ہے اور قاری آہستہ آہستہ ان رازوں سے واقف ہوتا ہے جو ابتدا میں مبہم ہوتے ہیں۔

اگرچہ نوآبادیات براہِ راست موضوع نہیں، لیکن اس کے اثرات ناول میں گہرائی سے موجود ہیں۔ برطانوی راج کے بعد بھی ذہنی غلامی اور سفید فام برتری کا احساس موجود ہے۔ کچھ کردار انگریزی زبان، مغربی ثقافت اور "مہذب" بننے کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی نظام کی باقیات ہیں جو مقامی شناخت کو مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔

اسی طرح، عیسائیت اور مشنری اثرات خاندان کے مذہبی و ثقافتی پس منظر میں جھلکتے ہیں اور ذات پات کا نظام، جو انگریزوں کے دور میں مزید مستحکم ہوا، ناول کے اہم سانحات کا سبب بنتا ہے۔ ویلوٹھا کی حیثیت ایک دلت کے طور پر اور اس کے ساتھ روا سلوک، نوآبادیاتی اور مقامی جبر کی مشترکہ تصویر ہے۔

ارون دھتی رائے کا اسلوب شاعرانہ، علامتی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے بڑی حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہیں، جیسے بچے کا رویہ، خاموشی کا مطلب، یا کوئی معمولی جملہ، یہ سب کہانی کو جذباتی گہرائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ ناول اپنے ٹائٹل لے ساتھ انصاف کرتا ہے۔

مگر مجھے یہ کہانی، یہ انداز بیاں قطعی متاثر نہیں لگا۔ ایسا محسوس ہوتا یے کہ یہ لکھتے ہوئے مصنفہ حد درجہ ڈپریشن یا کنفیوژن کا شکار رہی ہیں۔

ناول کا اسلوب غیر خطی (non-linear) ہے۔ کہانی مسلسل ماضی اور حال کے درمیان آگے پیچھے جاتی ہے، جس سے اسے پڑھنے میں کوفت کا شکار بھی رہی ہوں اور کہانی کے ساتھ جذباتی تعلق نہ جڑ پایا۔

دوسرا مسئلہ ناول کی رفتار ہے، کئی جگہوں پر کہانی بہت آہستہ چلتی ہے اور تفصیل پسندی بعض اوقات بوریت پیدا کرتی ہے۔ مصنفہ کی زبان شاعرانہ اور پیچیدہ ہے، جو اگرچہ ادبی طور پر خوبصورت ہے، مگر کہانی کے پلاٹ کو اتنا طول دیتی ہیں کہ یہ خوبصورتی بھی کہیں دب جاتی ہے۔ جیسے اکثر بسرگ خواتین سیک بات شروع کرتی ہیں اور اسے مکمل کئے بغیر اگلی کوئی بات شروع کر لیتی ہیں۔۔ ارون دھتی نے بھی اس ناول میں بھی یہی طرز رکھا ہے۔ جو میرے لیے تو دردِ سر ہی بنا رہا۔

بعض مناظر جیسے جنسی تعلقات یا مذہب و ذات پر تنقید، مخصوص ثقافتی یا مذہبی حلقوں میں حساسیت پیدا کر سکتے ہیں اور بعض کرداروں سے جذباتی تعلق یا ہمدردی پیدا کرنا مشکل ہے، خاص طور پر کہانی کے کچھ اہم موڑ پر۔

کرداروں کے ناموں میں بھی اتنی مماثلت ہے کہ آدھے سے زیادہ ناول تک سمجھ میں نہیں آتا کہ دادا کی بات ہو رہی یا اگلی نسل کے کسی کردار کی۔۔ کوچو ما۔۔ کوچو ما۔۔ اففف

مجھے اس ناول میں موجود تلخیاں بہت پسند آئیں، جیسے زندگی کے کئی سرمئی رنگ سمجھنے کو ملے۔ مگر آرون دھتی رائے کی جتنی ادبی قامت ہے۔۔ اس حساب سے یہ کہانی بہت سطحی تھی۔ اس ناول کو بکر پرائز ملا ہے۔۔ کیوں ملا ہے، اب تو یہ دینے والوں کو ہی معلوم ہو۔۔ یا شاید کوئی ماہر رہنمائی کر دے۔

یہ ناول پڑھتے ہوئے جب میں نے ادبی دوستوں سے اس ناول کے بور ہونے کے بارے میں دریافت کیا تو کسی صاحب نے کہا کہ اس ناول میں رومانس نہیں ہے۔۔ ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ جس ناول میں رومانس نہ ہو ہم جیسے سطحی (ان کے مطابق) قارئین کو ناول اچھے نہیں لگتے اور اس ناول میں بےحیا قسم کو بور کر دینے والا رومانس کی اتنی بھرمار تھی۔۔ بہن بھائی کا درمیان بھی رومانوی اور جسمانی قربت والا منظر شامل ہے۔۔ اس کو مصنفہ نے گویا تکلیف دہ عمل دکھایا ہے کہ کیسے وہ دونوں اپنے بچپن میں نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک دوسرے میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔۔ مگر کچھ بھی ہو۔۔ ہر لحاظ سے یہ منظر غلاظت لیے ہوئے ہے اور اس قسم کا غیر روایتی پن جو کسی رشتے کے تقدس کا خیال نہ رکھ سکے۔۔ لعنت ہے۔

اس ناول نے میرا اتنا وقت برباد کیا۔۔ کہ میں کئی اچھی کتابیں نہیں پڑھ پائی۔ میں نے اسے کلاسیکی سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا لیکن یہ بھی الٹرا کمرشل ہی نکلا۔

خیر خوشی اس بات کی ہے کہ میری اس کہانی سے جان چھوٹ گئی ہے۔

نوٹ: آرون دھتی رائے میری پسندیدہ خاتون ہیں۔

کہانی مجھے پسند نہیں آئی یہ الگ بات ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz