Phati Chat
پھٹی چھت
آج میرے بابا کی وفات کو پورا ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں صرف میرے بابا کی وفات نہیں ہوئی بلکہ میری پوری شخصیت کا انتقال بھی ہوا ہے۔ یہ سال میری زندگی کا سب سے ابنارمل سال رہا۔ میرے ساتھ رہنے والے لوگوں کو بھی اس بات کا کبھی اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اس پورے ایک سال میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھی۔ میرا زندگی میں بھرپور حصہ لینا، مسکرانا اور میرے کام یہ لوگوں کو دھوکا دینے کےلئے کافی تھے۔ میں یہ اس لیے نہیں لکھ رہی کہ مجھے کسی سے کوئی ہمدردی چاھیے بلکہ اس لیے کہ میرے بعد جو لوگ ان حالات سے گزریں تو میری یہ تحریر ان کے لیے فائدہ مند ہو۔
میری زندگی ہمیشہ طوفانوں سے لڑتے گزری ہے لیکن بابا کی وفات میری زندگی پر، میری شخصیت پہ اتنا گہرا اثر ڈالے گی۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے آپ سب ایک مضبوط اور بہادر لڑکی سمجھتے ہیں اور اس پورا ایک سال اس لڑکی نے اپنے کمزور لمحوں کے ساتھ خود کو برباد کیا ہے۔
میں اپنے اصولوں کو لے کر بہت سخت ہوں، لیکن اس ایک سال میں اپنے کئی اصول توڑے۔
ساری زندگی میں نے اپنی پروفیشنل لائف میں دوست نہیں بنائے، اخلاق اپنی جگہ لیکن آپ کے کولیگز کبھی بھی آپ کے دوست نہیں ہوتے۔
میں نے اس ایک سال میں دفتر میں کئی دوست بنائے اور زندگی زیادہ پیچیدہ ہوگئی۔ طیبا کو تو ورکنگ پلیس پہ کبھی کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس کا پروفیشنلزم کافی ہوتا تھا اس کے معاملات کو سنبھالنے کے لئے۔
میں جو ہمیشہ سے ایک مکمل انسان تھی، مجھے اس سال میں نامکمل ہونے کا احساس رہا۔ اسی وجہ سے میری لوگوں کے ساتھ attachments ہوئیں جو زہر سے بدتر ہوتی ہیں۔ طیبا سب کے ساتھ اچھے سے پیش آتی تھی، اچھا وقت گزارا کرتی تھی لیکن کسی کے ساتھ attachment نہیں رکھا کرتی تھی۔
میں اس ایک سال میں لوگوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی اچھی رہی۔ ایک حد سے زیادہ اچھا ہونا بھی بہت برا ہوتا ہے۔ طیبا کے ساتھ جو اچھا ہوتا وہ اس کے ساتھ بہت اچھی ہوتی اور اگر کوئی برا ہوتا تو اس کے ساتھ بری ہوتی یا کم از کم اس کے ساتھ اچھی نہیں ہوا کرتی تھی۔
میں نے اس ایک سال میں لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوششیں کی۔۔ بھلا لوگ بھی کبھی مطمئن ہوا کرتے ہیں؟ جبکہ طیبا ہر کسی کو مطمئن کیا بھی نہیں کرتی تھی۔
اس ایک سال میں حد سے زیادہ حساس رہی، لوگوں کے طعنے، جملے، حسد، insecurities اور نفرت مجھے تکلیف پہنچاتی رہی۔۔ اب سوچ رہی ہوں کہ یہ میرے ساتھ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا۔ میری شخصیت ہی ایسی ہے جس کے لوگ گرویدہ ہو جاتے ہیں یا پھر لوگوں کو آگ لگ جاتی ہے اور جن کو آگ لگتی ہے ان کا تو کوئی حل ہی نہیں ہے۔۔ ان کو اسی آگ میں جلتے رہنے دینا چاھیے۔۔ کیونکہ یہی ان کی جگہ ہے۔
طیبا کے بارے میں دوسرے کیا کہتے ہیں طیبا کو کبھی فرق نہیں پڑا کرتا تھا۔۔ کیونکہ طیبا ہمیشہ سے خود کو جانتی ہے۔
اس ایک سال میں لوگوں کے سامنے بونگیاں بھی ماری، جذباتیت کا شکار بھی ہوئی اور رونا پٹنا بھی ڈالے رکھا۔۔ جب کہ طیبا یہ کام صرف اپنے بیسٹ فرینڈز یا گھر والوں کے سامنے کرتی تھی۔
اس ایک سال میں جن لوگوں نے میری ٹانگیں کھینچی میں نے ان کو سنجیدہ لیا۔ جبکہ آپ سب جانتے ہیں کہ طیبا ایسے لوگوں کو سنجیدہ نہیں لیتی تھی بس وقت آنے پر ان کی ٹانگیں توڑ کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتی تھی۔۔ اپنے دل پر نہیں لیا کرتی تھی۔
طیبا کو انسانیت سے محبت تھی لیکن وہ ایسے لوگوں کی صحبت میں نہیں بیٹھا کرتی تھی جو اس سے insecured ہوں، اسے نیچا دکھانے کی نفیس کوششیں کریں، کمپلیکس کے مارے لوگوں میں۔۔ بلکہ وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کی محفل میں بیٹھنا پسند کرتی تھی جن سے وہ متاثر ہو اور جو ایک دوسرے کو اوپر کھینچنے کی کوشش کریں۔ جن کی گفتگو کا موضوع لوگ نہ ہوں۔ جو لوگوں کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔ اگر کسی جگہ پہ اسے ایسی صحبت میسر نہ ہوتی تو وہ تنہا رہنے کو ترجیح دیتی۔
اس ایک سال میں ان لوگوں کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش کی جو آپ کی self worth and self identity کے دشمن ہوں اور ان لوگوں سے ملنے سے اجتناب برتنے لگی جو مجھے میری شخصیت اور کام سے متاثر ہو کر ملنا چاہتے تھے۔ مجھ سے بات کرنے کے خواہشمند تھے۔ مجھ سے ملنا ان کےلیے honor تھا اور میں پلاسٹک کے رشتوں کے پیچھے کوششیں کرتی رہی۔۔ افسوس
میں جو واٹس ایپ سب سے کم دیکھا کرتی تھی۔۔ فیسبک، ٹوئٹر، ویب سائٹ اور انسٹاگرام پر اپنا کام کرتی تھی۔ میں نے حد سے زیادہ واٹس ایپ استعمال کرنا شروع کیا۔ اپنے سماجی رابطوں کی بجائے ذاتی رابطوں میں دماغ کھپایا۔۔ یہاں تک کہ کوئی میرا واٹس ایپ پر میسج دیکھ کر نظر انداز کر دیتا تو مجھے تکلیف ہوتی۔۔ میرا دل زخمی ہوتا۔۔ میں ایسی کب تھی؟ مجھے اتنی پرواہ کب سے ہونے لگی۔ میں ان رویوں کو کب سر پر سوار کرنے لگی؟
لوگ جو بلاوجہ مجھ سے مقابلہ بازی کرتے رہے میں ان کو جواب دینے میں مصروف رہی۔۔ جبکہ طیبا تو وہاں مقابلہ کرنا اپنی توھین سمجھتی تھی جہاں مدِ مقابل اس سے بڑا یا برابر نہ ہوتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑنا طیبا کی شخصیت کا حصہ کبھی نہیں تھا۔۔
طیبا دشمنوں سے زیادہ اپنے قریبی لوگوں سے محتاط رہا کرتی تھی۔ اب اس ایک سال کے بعد میں اپنی آستینیں اور دامن جھاڑ رہی ہوں تو جا بجا چھوٹے بڑے سانپ ہی سانپ ہیں۔
طیبا ہمیشہ اپنے کام میں مست رہتی تھی، محنت کیا کرتی تھی اور فضول چیزوں میں اپنی توانائی ضائع نہیں کرتی تھی۔
آپ اس تحریر کو میری تعریف نہیں سمجھیں، یہ اندازہ کریں کہ میں نے اپنی شخصیت اس ایک سال میں کیسے خراب کی۔
میں نے سنا تھا کہ باپ چھت ہوتا ہے۔۔ اس ایک سال نے مجھے بتایا کہ یہ واقعی ہی چھت ہوتا ہے۔۔ جب میرا باپ گیا تو میری چھت پھٹ گئی اور میں بوکھلا کر رہ گئی۔۔ پہلی بار میں ان تمام رویوں کا شکار ہوئی۔۔ مجھے اس پھٹی چھت کی نیچے رہنا نہیں آتا تھا۔۔ میرا باپ شاید میرا سب سے بڑا سپورٹ سسٹم تھا جس کے جاتے ہی میں لڑکھڑانے لگی اور میں نے سہارا لینے کے لئے بیساکھیوں کا استعمال کیا۔۔ مگر میں معذور نے تھی کہ بیساکھیاں استعمال کرتی۔۔ مجھے اس پھٹی چھت کے ساتھ ہی رہنا سیکھنا تھا۔۔ مطابقت پیدا کرنی تھی۔ چھت پھٹی ہو تو گرم سرد ہوا تو چھوئے گی ہی۔۔ لوگ برے نہیں ہیں۔۔ لوگ تو ہوتے ہیں ایسے ہیں۔۔ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔ بس آپ کو اپنے کمزور لمحات میں ان لوگوں سے مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجھے آج پوری طرح سے یقین آیا ہے کہ واقعی بابا مرچکے ہیں اور ہم دوبارہ کبھی نہیں مل سکیں گے۔۔ نہ ہمارا گھر کبھی اس طرح سے مکمل ہوگا جیسے ان کے ہونے سے ہوتا تھا۔ میں نے سب جانتے ہوئے بھی اس بات پر یقین نہیں کیا تھا۔۔ آج کر رہی ہوں تاکہ مجھے یہ ہمیشہ یاد رہے کہ طیبا تب جتنی بھی مضبوط اور بہادر کیوں نہ ہو جاو تم بھی Vulnerable ہو سکتی ہو۔ تمہیں سب سے زیادہ اپنا خیال رکھنا ہوگا۔۔ خود سے محبت کرنا ہوگی۔
تمہیں ان لوگوں، رشتوں اور باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنا جو تمہاری نفسیاتی صحت کےلیے نقصان دہ ہوں۔
یقین کیجیے میں اتنی مضبوط تھی کہ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔۔ یہ صرف بابا کا گزر جانا تھا کہ۔۔ جس نے میری زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مجھے اس مقام پر پہنچانے والا ان کی وفات کا صدمہ تھا۔۔ لوگ یا ان کا رویہ نہیں اور اس صدمے کی گہرائی صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس سے گزرے ہوں یا گزر رہے ہوں۔
آج میں طیبا سید سے معافی مانگتی ہوں جو میں نے ایک سال میں اس کے ساتھ کیا۔۔ آج سے آپ کو وہی طیبا ہی دیکھنے کو ملے گی جو وہ ہمیشہ سے تھی۔۔ تنہا، بہادر، مگن اور کسی کی پرواہ نہ کرنے والی اور اپنی ساری بیساکھیوں کو میں نے جلا دیا ہے اور اب اس پھٹی چھت کے ساتھ مجھے نہ صرف رہنا آ گیا ہے بلکہ سر اٹھا کر جینا بھی آگیا ہے۔
اب یہ سر اور گردن رب کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکے گی۔
اپنے بابا کا مجھے دیا ہوا لفظوں کا یہ تحفہ ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا جو انہوں مجھے آخری بار ملتے ہوئے دیا۔۔
"بڑے خواب دیکھنے والے اداس نہیں ہوا کرتے"۔
میرے بیسٹ فرینڈز، میری تنہائی اور سب سے بڑھ کر میرا رب جس نے مجھے سمجھا اور مجھے اس منجھدار میں سہارا نہیں دیا۔۔ تاکہ میں ڈوب ڈوب کر تیرنا سیکھ لوں۔
اتنی لمبی تحریر پڑھنے کا۔۔ اسے وقت دینے کا بہت شکریہ۔
میرے بابا کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے ان لوگوں کو بخشیں جو اپنے پیاروں کو کھو دینے کے بعد ایسی صورتحال سے گزرتے ہیں۔۔ باقی بابا کی مغفرت، اعمال اور جہاں وہ اس وقت ہیں، کن حالات میں ہیں۔۔ اس کے لیے صرف بےبسی ہے۔۔ اللہ اور ان کے درمیان کا معاملہ ہے۔۔ جتنی محبت اور رحمدلی مجھے اپنے باپ سے ہے۔۔ اللہ کو اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سو اسی کا بندہ اس کی طرف لوٹ گیا ہے۔۔ وہ خود ہی سنبھالے۔
Stars are not made but born۔