Mina Aur Babu Ki Shadi
مینا اور بابو کی شادی
دھاراڑ گاؤں مٹھی تھرپارکر میں ایک شادی میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ایسی شادی میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھی۔ مجھے ان کی زبان نہیں آتی تھی، لیکن پھر بھی اداس اور غمگین بیٹھی ہوئی دلہن مینا سے میں نے باتیں کی اور اسے ہنسایا بھی۔
میں انتہائی سادہ لباس میں تھی لیکن پھر بھی وہاں میرا کردار ایک ایلین جیسا تھا اور میں وہاں سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ میں نے شادی کی مختلف رسومات کے بارے میں وہاں پنڈت سے جانکاری لی۔ پنڈت بہت ہنس مکھ انسان تھا، اور ان کو اردو بھی سمجھ میں آتی تھی۔
منڈپ پہ جب مینا اور بابو پھیرے لے رہے تو میں بے چینی سے گھِر گئی، کیونکہ ان کا ایک پھیرا کم از کم پندرہ منٹوں پر مشتمل تھا۔ دولہے کے پاوں رسماً کسی دھاگے سے باندھے تھے تو اس وجہ سے بھی ان کی رفتار چیونٹی کی رفتار کے برابر تھی۔
منڈپ کے چاروں طرف خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے مرد کھڑے ہوئے تھے۔
پھیروں کے دوران منڈپ کے دو جانب سے مجھے کچھ شریر خوبصورت لڑکیاں ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلا رہی تھیں اور میرے ساتھ بیٹھی اماں نے ڈاڈھکی زبان میں بتایا کہ پھیروں کے دوران اگر میں نے اپنی جگہ تبدیل کی تو یہ سب مل کر مجھے چٹکیاں کاٹیں گی۔ ان کی تعداد دیکھ کر میں محسوس کر رہی تھی کہ چٹکیوں سے ہی میرا قیمہ بنا دیں گی۔ میں ان کو منع کرتی رہی اور وہ مجھے بلاتی رہیں۔ پھر میں نے ان کو سندھی میں کہا کہ میں چری چھوکری نہ آہی۔
مینا اور بابو کے چار پھیروں کے بعد ان کا عقد طے پا جانا تھا، یہ بھی پہلی بار معلوم ہوا کہ ہر جگہ سات پھیرے نہیں ہوتے۔
اور جب میں واپس آنے لگی تو سب لڑکیوں سے ہاتھ ملایا۔ ایک بزرگ خاتون نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ تم نہ جاو، اسی گاؤں میں رہو میں تمہاری اپنے چھوکرو سے شادی کراوں گی۔ میں ہنس رہی تھی اور اماں میرا ہاتھ نہیں چھوڑ رہی تھیں۔
میں نے اس شادی میں اردو میں ایک گانا بھی گایا جو لوگوں کے اسرار کی وجہ سے گایا جب کے مجھے گانا نہیں آتا۔
اس کہانی میں دردناک بات یہ ہے کہ جب میں کراچی واپس آگئی تو معلوم ہوا کہ بابو شادی سے اگلے روز مینا کو اس کے مائیکے چھوڑ آیا تھا اور نہ جانے دونوں میں ایسا کیا ہوا تھا کہ اس روز مینا نے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کو ختم کر لیا۔