Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Teeba Syed
  4. Dabba Number 10

Dabba Number 10

ڈبہ نمبر دس

اسلامی کیلنڈر کے مطابق دس ذوالحجہ کو مسلمان قربانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ مگر ریشماں اور کلھو کا عوامی قصاب دس ذوالحجہ سے پہلے ہی کراچی ریلوے اسٹیشن پر ان کو ذبح کرنے کے لیے آن پہنچا۔

ریشماں اور کلھو اپنے سینگوں پر تازہ سرسوں کے تیل کی مالش کرنے کے بعد کینٹ ریلوے اسٹیشن کراچی پہنچے۔ قربانی کے ان جانوروں کا تعلق بزنس کلاس سے تھا، جس کا اس سلطنت میں ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے۔ مگر ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ٹرین خالصتاً عوامی تھی اور جمہوری قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی درجہ بندی کے سخت خلاف تھی۔

مگر کلھو اور ریشماں نے اپنے نازک سینگوں کو گرمی کی تپش سے بچانے کے لیے ڈبہ نمبر دس میں اپنی ٹکٹیں کرائی تھیں جس کے لیے ان کو اچھے خاصے دام خرچ کرنا پڑے۔

مگر عوامی بہت سخت آدمی تھا۔ اس نے جمہوری حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ریل کی بوگی نمبر دس یعنی ڈبہ نمبر دس موقع اور ریل سے غائب کر دیا۔ روانگی سے بیس پچیس منٹ قبل اسٹیشن کے منہ پھاڑ اسپیکر سے عوامی کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ "بوگی نمبر دس کو ریل کا حصہ نہیں بنایا گیا، اس لیے انکوائری دفتر میں آئیں تاکہ ہم آپ کے پیسے آپ کے منہ پر ماریں اور آپ کو اسٹیشن سے دفعان کریں"۔

یہ اعلان سنتے ہی ریشماں کے سینگ غصے سے لال ہو گئے اور اس سے پہلے کہ وہ ان سے آگ برساتی، کلھو ایک اور قربانی کے جانور کو اپنے ساتھ لیے انکوائری دفتر پہنچا۔

جیسے ہی وہ انکوائری دفتر پہنچے تو انکوائری والی چمگادڑ نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بکنگ دفتر کی طرف اشارہ کر دیا۔

اور بکنگ دفتر کے باہر پڑے آہنی تالے کو دیکھ کر کلھو اس بزنس کلاس قربانی کے جانور کے ساتھ ریشماں کے واپس پاس آیا۔

ریشماں فون پر اسٹیشن ماسٹر کو کال کرکے اپنا مدعا بیان کر رہی تھی جس پر اسے کورا چٹا جواب ملا تھا: "عوامی تمام تر جمہوری قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے آج ڈبہ نمبر دس کے معزز مسافروں کو جی بھر کے ذلیل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، اس لیے آپ تین چار مسافر روئیں، پیٹیں یا اپنے سینگ پھوڑیں، مگر ان کی صبح کی میٹھی نیند خراب مت کریں"۔

اسی اثنا میں ایک اڑتی اڑتی خبر ان جانوروں کے کانوں میں پہنچی کہ عوامی کا چھوٹا بھائی محافظ آپ کی ذلالت کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا ہے اور وہ جلد ہی موقع پر پہنچ کر آپ کی تسلی و تشفی کرا دے گا۔

ریشماں کو اس خبر سے یقیناََ کافی تسلی ملی اور اس نے کلھو اور دوسرے مسافر شیرا سے اپنا سامان ریلوے کے اے سی کلاس میں رکھنے کا کہا، کیونکہ وہ محسوس کر رہی تھی کہ محافظ بھائی صرف چودھویں کی رات کو ہی اپنا دیدار کروائیں گے۔

وہ تینوں ایک خالی کیبن میں ایک ایک برتھ پر اپنا قبضہ جما کر بیٹھ گئے۔ ریشماں نے اپنے سینگوں پر یہ سوچتے ہوئے ہاتھ پھیرا: "آج یہ سینگ لڑیں بغیر ان نشستوں سے نہیں اٹھیں گے"۔ کیونکہ جہاں جنگل کا راج ہو وہاں طاقت، ڈھٹائی اور بدزبانی سب سے قیمتی ہتھیار ہوتے ہیں۔

اب ڈبہ نمبر دس کے تین مسافر ڈبہ نمبر بارہ میں موجود تھے اور اب ان کا سامنا پہلے سے موجود مسافروں کے ساتھ تھا۔ سب کے سینگ گرم ہو چکے تھے، مگر کمال کی بات یہ تھی کہ کسی بھی مسافر نے آپس میں سینگ نہیں لڑائے بلکہ ڈبہ نمبر دس والوں کی روداد سننے کے بعد ان کے دل میں رحم پیدا ہو چکا تھا۔

اب ڈبہ نمبر دس اور ڈبہ نمبر بارہ والے محافظ بھائی کو ڈھونڈ رہے تھے تاکہ وہ اس مسئلے کا کوئی شفاف حل نکالے۔ جب کہ محافظ صاحب "ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم" کے مصداق کہیں نظر نہیں آئے۔

دو گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی محافظ بھائی نظر نہ آئے تو کلھو اور شیرا بھائی ریل کی چین کھینچ آئے۔ انجن کی آواز اور رفتار میں تبدیلی آئی مگر جلد ہی ریل کے عملے نے نظر انداز کرتے ہوئے اسے اپنی رفتار پر واپس لاتے ہوئے منزل کو رواں دواں کر دیا۔ عوامی بھائی نے یقیناً دل ہی دل میں سوچا ہوگا: "یہ بزنس کلاس کے جانور ہی ہوں گے اور ان کی بلا سے، آج وہ مر بھی جائیں تو ان کی کوئی بات نہیں سننی"۔

دو تین گھنٹے اسی کرب میں گزرے اور پھر بارہ نمبر والے مسافر دس نمبر والے مسافروں کی دلجوئی کرنے لگے جس سے کیبن کا ماحول خوشگوار ہوا۔

ابھی ماحول خوشگوار ہوا ہی تھا کہ نارنجی رنگ و ساخت والا ٹی ٹی انہیں برتھ سے اٹھانے کے لیے آیا اور اسے دیکھتے ہی ریشماں نے اپنی زبان سے آگ کے گولے برسانا شروع کر دئیے۔ وہ یہ کہہ کر بھاگ گیا: "آپ اس ریل پر چڑھے ہی کیوں؟"

ٹی ٹی کے جاتے ہی ماحول پھر سے خوشگوار ہونا شروع ہوا۔ اب کیبن میں باقاعدہ گھر جیسا ماحول بننے لگا۔ دس نمبر ڈبے کے مسافر بارہ نمبر ڈبے کے جن مسافروں کی جگہ بیٹھے تھے، انہوں نے سمجھوتہ کرنا شروع کر دیا۔

اب کوئی برتھ پر لیٹتا تو دوسرا اس کے قدموں میں بیٹھ جاتا۔ باری باری آرام کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

ریشماں نے اپنی تھیلی سے کچھ کھانے کو نکالا اور کیبن میں موجود سب لوگوں میں بانٹا۔ ایک شاہ باز بھائی نے اپنے تھیلے سے پانی نکالا، کسی نے اچار اور روٹی، غرض کہ سب نے کچھ نہ کچھ نکال کر آپس میں تقسیم کیا جس کی وجہ سے سفر کی صعوبتیں کم لگنے لگیں۔ ہر مسافر اپنے آپ میں ایک کردار تھا۔ سب مل کر قصے چھیڑنے لگے۔

سکھر میں ایک شادی شدہ جوڑا، جو بارہ نمبر کا مسافر تھا، اس نے اپنے رشتے داروں کو فون کرکے اس کیبن والوں کے لیے چائے منگوا لی تھی۔ جیسے ہی وہ اسٹیشن پر اترا تو کیبن والوں کے لیے چائے آ گئی۔ یہ چائے کم اور محبت زیادہ تھی۔

دن تو جیسے تیسے گزر ہی گیا۔ شام ہوئی تو سب کو سستانے کا خیال آیا۔ اب سب نے مل بانٹ کر برتھوں کا استعمال کیا۔

ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ کانوں میں تیز تیز جملوں کا شور پڑنے لگا۔ آنکھیں کھول کر دیکھی تو بزنس کلاس کا ایک اور جانور بارہ نمبر میں موجود تھا جو اس بات پر سیخ پا تھا کہ "ریل میں ڈبہ نمبر دس کیوں نہیں لگایا گیا؟ ہم جانوروں کو انسان سمجھ رکھا ہے پاکستان ریلوے نے؟"

اس کی باتیں سن کر کلھو اور ریشماں بھی پُرسکون ہی رہے اور بارہ نمبر والوں کے ساتھ مل کر اس کو دلاسہ دیا۔

چھ برتھیں ایک قطار میں اور سامنے کھلے میں دو برتھیں تھیں یعنی کل ملا کر آٹھ اور ڈبہ نمبر دس والوں کو ملا کر مسافروں کی تعداد بارہ ہو چکی تھی۔

محافظ بھائی کے بارے میں خبر ملی کہ وہ کراچی سے ریل میں بیٹھے ہی نہیں کیونکہ وہ آج ڈبہ نمبر دس والوں کو خود مختار بنانا چاہتے تھے۔

نئے مسافر کو ٹھکانے پر لگانے کے بعد ڈبہ نمبر دس اور بارہ والے پھر سے سو گئے۔ بمشکل ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ دو جوان ڈبے میں داخل ہوئے اور دور سے ہی ان کے شور کی آواز آ رہی تھی۔ بارہ نمبر والے ڈبے کے مسافر اسے دیکھتے ہی بولے: "ڈبہ نمبر دس والے اور آ گئے ہیں"۔ خیر، یہ لوگ بھی اسی کیبن والوں کے پاس آ گئے۔

ساری رات یہی کہانی دُہراتی رہی۔ ایک ایک کرکے بارہ نمبر والے اترتے گئے اور دس نمبر والے آتے رہے۔

بارہ نمبر کا ایک بہت ہی ملنسار اور خیال رکھنے والا مسافر جب اپنے اسٹیشن پر اترا تو ان کے گھر والے ایک بڑا سا تھرماس جو الائچی والی خوشبودار چائے سے بھرا ہوا تھا اور بسکٹ کے ڈبے اٹھا کر کھڑے تھے۔ انہوں نے کیبن میں وہ چائے بھجوا کر رخصت لی۔ ان کے جانے سے دل بھی بجھ گیا۔

دس نمبر والوں نے خوب مزے لے لے کر چائے پی اور ایک بارہ نمبر ڈبے والی خاتون، جو کچھ دیر پہلے ہی کیبن میں آ کر بیٹھی تھیں، تو چائے کو دیکھتے ہی ان کے چہرے پر بھی مسکان آ گئی۔ چائے کی پیالی ان سے گپ شپ کی شروعات بنی۔

رات بھر ڈبہ نمبر دس کی صدا سب کو سنائی دیتی رہی جسے سنی ان سنی کرکے سب سوتے رہے۔

ایک لمحہ وہ آیا جب اس کیبن کے سارے مکین ایک ایک کرکے اپنے اسٹیشن پر اتر گئے۔ کلھو اور ریشماں اکیلے رہ گئے۔

جیسے ہی ریل چیچہ وطنی کے اسٹیشن پر رکی تو ریشماں نے اپنے سینگوں کو چادر سے لپیٹا اور پلیٹ فارم پر اترنے ہی لگی تھی کہ کلھو سے ایک اور بزنس کلاس جانور مخاطب ہوا۔ اس نے بتایا کہ "وہ ڈبہ نمبر دس کا مسافر تھا لیکن ریل پر وہ ڈبہ جوڑا ہی نہیں گیا"۔

کلھو اور ریشماں کی نظریں آپس میں ملیں اور اس ساہیوال اسٹیشن والے کو اللہ کی امان میں چھوڑ کر نیچے اتر آئے۔ وہ مطمئن تھے کہ عوامی جمہوریت کے تمام تر قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے جو مرضی کر لیں، اب سفر تمام ہو چکا تھا۔ انگریزی والا بھی اور اردو والا بھی۔

انہیں یہ سفر، ڈبہ نمبر دس اور ڈبہ نمبر بارہ کبھی نہیں بھولے گا۔

جمہوری نمائندے کتنے ہی بےحس کیوں نہ ہو جائیں، ابھی بھی جمہور میں اچھائی قائم ہے، جس کی وجہ سے زندگی کا یہ سفر رواں دواں ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood