Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Teeba Syed
  4. Akeli Aurat

Akeli Aurat

اکیلی عورت

عورت ہونے سے بہت بہتر تھا کہ میں کوئی کُتا یا بِلا پیدا ہو جاتی۔ آپ کو یہ بات معیوب لگ رہی ہوگی۔ آپ توبہ استغفار بھی کریں گے۔ لیکن میرے مسئلے کو نہیں سمجھیں گے۔ مسئلہ شروع میرے گھر سے ہوتا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا مجھے میرے گھر والوں نے فخر اور پیار سے پالا۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں بھائیوں سے کسی طور کم ہوں۔ مجھے ہر کام اکیلے، اپنی مدد آپ کے تحت سکھایا جیسے بھائیوں کو سکھایا۔ گھر سے دور نکلے مجھے پورے بارہ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن ان بارہ سالوں نے مجھے پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ ان بارہ سالوں سے پہلے جو دنیا میں نے اپنے گھر میں بحثیت عورت دیکھی تھی۔۔ وہ تو کوئی ڈزنی ورلڈ تھاز کوئی فیری ٹیل تھی۔

باہر کی دنیا میں عورت کے معنی وہ نہیں ہیں جو میں نے اپنے گھر میں سیکھے تھے۔ مجھے اپنے گھر والوں سے شدید اعتراض ہے کہ انہوں نے مجھے یہ کیوں نہیں سکھایا کہ تم انسان نہیں ہو۔۔ پہلے درجے کی تو بالکل بھی نہیں۔ تم اس قدیم عرب کی وہی لونڈی ہو جسے خریدا جاتا تھا، غلام ہوتی تھی وہ۔۔ ہاں بس وہ تمہاری طرح پڑھی لکھی اور ماڈرن نہیں ہوتی تھی۔ اسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لونڈی ہے، لونڈی رہے گی۔ تمہیں بتایا گیا کہ تم عورت ہو مگر تمہارے ساتھ رویہ لونڈیوں والا ہوگا۔ تمہیں لونڈی بن کے رہنا ہوگا تاکہ سب تمہیں اچھی اور نیک عورت کہہ سکیں۔

مجھے گھر والوں نے یہ نہیں سکھایا کہ تمہیں ہر ہر جگہ اپنا کریکٹر سرٹیفکیٹ دکھانا ہوگا۔۔ مرد کا تو کوئی کریکٹر ہی نہیں ہوتا۔ کریکٹر کی ساری ذمہ داری تم پر ہے۔

تین ماہ قبل سے میں کراچی میں رہائش کے مسئلہ سے دوچار ہوں۔ جس فلیٹ پر میں پچھلے تین سال سے رہ رہی تھی، اسی بلڈنگ کا ایک آدمی مجھے بری طرح پریشان کرتا ہے۔ اس شخص کے خلاف تھانے تک کے چکر لگا لیے۔۔ مگر پولیس اسٹیشن شریفوں کے لیے دار الحساب اور بدمعاشوں کے لیے دارالامان ہے، یہ کچھ عرصہ کاروائی کرنے کے بعد مجھے سمجھ میں آگیا۔ اب اسی بلڈنگ میں رہ کر اس شخص کو روز روز دیکھنا میرے بس میں نہیں ہے۔ وہاں سے رشتے داروں اور دوستوں کی طرف ٹھکانے بدل بدل کر رہ رہی ہوں۔ عید سے پہلے کسی مناسب جگہ پر کوئی فلیٹ مل نہیں رہا تھا۔ گورنمنٹ کی رہائش حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہاں بھی اتنے سارے دن ضائع کرنے کے بعد جواب ہوا کہ اکیلی عورت وہاں نہیں رہ سکتی۔

پرائیویٹ رہائش کا بندوست کرنا شروع کیا۔ یقین کیجیے یہ سب بھی میری برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ مالک مکان میری پوری تفتیش کرتے ہیں جو ان جا حق بھی ہے۔ لیکن یہ سب کرنے کے بعد بھی ان کو چین نہیں پڑتا۔ وہ میرے کریکٹر کے ٹھیکیدار بنتے ہوئے مجھ سے ایسے سوالات کرتے ہیں، ایسی عجیب پابندیاں لگاتے ہیں۔ پھر اس رات مجھے نیند نہیں آتی، ان کے سوالات، ان کا مجھ پہ شک مجھے برچھیوں کی طرح لگتا ہے۔

تف تو یہ ہے کہ ساری بات طے ہو جاتی ہے، ڈیل ہو جاتی ہے اور جس دن کنٹریکٹ کرنا ہو اس دن مکر جاتے۔

اب پندرہ بیس دن پہلے دونوں اطراف کی تمام شرائط کو مانتے ہوئے کنٹریکٹ ہوا۔ رہائش مجھے پسند نہیں آئی تھی لیکن یہ سکون ہوگیا تھا کہ روز روز اب اس کٹہرے سے نہیں گزرنا پڑے گا، اپنی گارنٹی دینے کے لیے اپنے جاننے والوں کو تکلیف نہیں دینا پڑے گی۔ ایڈوانس پیمنٹ سب کچھ ہوگیا۔ آج چابی لینے گئے تو مالک مکان کے بیٹے نے پھر مجھے کٹہرے میں کھڑا کر لیا کہ "آپ خاتون ہیں اس لیے آپ کو کوئی وزٹ نہیں کرے گا"۔

جب کہ کنٹریکٹ سائن ہونے سے پہلے میں نے اپنی فیملی کے تجویز کردہ کئیر ٹیکرکے وزٹ کرنے کا بتایا تھا۔

میں نے اسے کہا کہ میں ہوسٹل نہیں لے رہی اپارٹمنٹ لے رہی ہوں۔ مجھے لوگ وزٹ کریں گے اور ہاں ویسے لڑکے نہیں آئیں گے جیسے آپ سمجھ رہے۔ باقی میں اپنے فلیٹ میں ناچوں کودوں جو مرضی کروں، اس کی آپ کو جواب دہ نہیں ہوں۔ مگر میری وجہ سے آپ کی بلڈنگ، محلہ یا آپ کا نام خراب ہو تو اس کے لئے میں جواب دہ ہوں۔ میں اپنے گھر والوں سے اتنی دور رہ رہی تو مجھے کوئی وزٹ بھی نہ کرے۔۔ میں یہاں تنہائی سے ہی مر جاؤں۔

لڑکے نے اپنے باپ کو حقائق مسخ کرکے برین واش کیا اور انہوں نے کنڑیکٹ کرنے کے باوجود فلیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ بیٹا انا کا شکار تھا۔ جب اس کے والد نے ساری ڈیل کی تو اس کا مجھ سے یہ سوال کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ اپنے والد سے بات کرتا۔ عورت دیکھ کر اس نے بھی افسری جھاڑنے کی کوشش کی۔

یہ قصہ اب پھر دوہرایا جائے گا اور بار بار دوہرایا جائے گا یہاں تک کہ کوئی مجھ پر بھروسہ کرنے کےلیے تیار نہ ہو جائے۔ تب تک میری نفسیاتی حالت اتنی ابتر ہو جائے گی کہ۔۔

کتنی ہی لڑکیاں ہیں جن کو میں جانتی ہوں ان کے فلیٹس ہر لڑکوں کا آنا جانا ہے۔ کئی لڑکوں کو بھی جانتی ہوں کہ ان کے فلیٹس پر لڑکیاں باقاعدہ لائی جاتی ہیں۔۔ لیکن ان کے لیے کوئی مشکلات نہیں ہیں۔

پچھلے تین سال سے میرے فلیٹ پر میری فیملی کے مرد کے علاہ کوئی مرد نہیں آیا۔

میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میرے فلیٹ تک کسی مرد کو رسائی نہیں ہوتی۔۔ یہ مالک مکان کی وجہ سے نہیں تھا۔۔ میرا اپنا بنایا ہوا اصول تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود مجھے ہی بار بار اپنے کردار کی گواہی دینا پڑتی ہے اور مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ مالک مکان مجھے کرایہ دار کیوں نہیں سمجھتے۔۔ وہ میرے کردار کا ٹھیکہ ایسے اٹھانا چاہتے ہیں جیسے میرا رشتہ لینا ہو انہوں نے۔

یہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔۔ ہر ہر جگہ مجھے بہت الگ طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

جو مرد مجھے پسند کرتے ہیں وہ بھی مجھے بہت مشکل خاتون سمجھتے ہیں۔۔ کیونکہ انہوں نے بھی آزاد، خودمختاری عورتیں فلموں کہانیوں میں ہی دیکھی ہیں، اصل زندگی میں ان کا پالا نہیں پڑا ایسی عورت سے۔ انہوں نے بس ایک طرح کی آسان سی عورتیں دیکھی ہیں۔۔ مجھے بدقسمتی سے ان عورتوں کی طرح نہیں پالا گیا۔۔ مجھے تیسرے درجے کی شہری والی ذہنیت کے ساتھ نہیں پالا گیا۔۔ مجھے صحیح اور غلط کو جینڈرڈ بائسڈ کرکے نہیں سمجھایا گیا۔

مجھے شادی اور اس طرح کے مشورے مجھے مت دیجئے گا کیونکہ آپ کو میرے ریلیشنپ اسٹیٹس کا نہیں معلوم۔ شادی بھی میری جیسی عورتوں کے لیے پناہ نہیں ہوتی۔ ہمارے مردوں کو دوسروں کی عورتیں آزاد اور مضبوط اچھی لگتی ہیں۔۔ اپنی عورتیں لونڈیوں جیسی خصوصیات والی چاھیے۔۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھروں میں اور محلوں میں جو عورتیں ہیں ان کے ساتھ ان کے مرد لونڈیوں والا ہی برتاؤ کرتے ہیں۔

اور ہمارے معاشرے میں اچھی اور گھر بسانے والی عورت بھی وہی ہے جو اس رویے کو قبول کر لے۔

گھر سے باہر کی دنیا جس سے میں ایک دہائی سے ڈیل کر رہی ہوں بہت مختلف ہے۔ مرد تو دور کی بات مجھ سے تو بہت سی خواتین بھی اس لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہیں کیونکہ میرے جیسی عورت ان کے لیے خطرہ ہے۔

گھر والوں نے ایسی عجیب شخصیت بنا دی ہے ایک مضبوط عورت اور straight forward، خود مختار عورت کہ میری تمام تر کوششوں کے باوجود معاشرے اور میرے درمیان موجود فاصلے سمٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ اس نے مجھے مکمل طور پر تنہا کر دیا ہے، لوگوں کے، دوستوں کے، اپنوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میں تنہا ہوں۔

This place is not for me.

یہ معاشرہ میری جان لےگا یا مجھے خود کو ختم کر دینے پر مجبور کر دے گا۔

بات صرف اس ایک واقعہ کی نہیں ہے۔۔ اس ماینڈسیٹ کی ہے۔

اگر آپ نے بھی معاشرے کو غلط کہنے کی بجائے مجھے حساس وغیرہ جیسے القابات دے کر وکٹم بلیم کرنا ہے تو آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ اس معاشرے میں رہنے کے قابل ہیں۔

اور جن مردوں کو اعتراض ہو وہ صرف ایک دن کے لئے عورت کا حلیہ اپنائیں اور ایک دن خود کو عورت سمجھتے ہوئے اس معاشرے کا سامنا کریں۔ پھر اعتراض کریں۔ جن لوگوں کو صرف اور صرف مرد ہونے پر privilege مل رہی ہو، ان کو میری کیفیت سمجھ نہیں آسکتی۔

اور میں نے یہ سب فیسبک پہ کیوں لکھا؟ کیونکہ اپنا دل ہلکا کرنے کےلئے میرے پاس اس سے بہترین جگہ اور کوئی نہیں تھی۔ ہم وہی کرسکتے ہیں جو ہمیں کرنا آتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam