Choosa Hua Aam
چوسا ہوا آم
آدھی رات کو عدالت لگوائی گئی جب لوگ چین کی نیند سو رہے تھے اور جج کو اپنا فیصلہ سنانا پڑا، فیصلہ انصاف پر مبنی تھا یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر ایسی کیا ایمرجنسی ہو گئی تھی کہ عدالت آدھی رات کو لگانی پڑی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ معاملے کا آغاز صبح اس وقت ہوا جب آموں کی پیٹی آئی۔
ان آموں کو میں نے پورے انصاف کے ساتھ اپنے بچوں میں تقسیم کیا، سب نے اپنے آم شام تک کھا لئے لیکن فاطمہ نے فیصلہ کیا کہ یہ آم وہ صبح اس وقت کھاے گی جب کسی کے پاس آم نہیں ہوگا اس کے خیال میں اس سے آم کی غذائیت اور مٹھاس بڑھ جاتی ہےخیر اس نے وہ آم ایک شاپر میں اچھی طرح سے لپیٹ کر فریج میں رکھ دیا، پورا دن ہنسی خوشی سے گزر گیا اور ہم سب سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، اچانک رات کو اوپر سے فاطمہ کے چیخنے کی آواز آئی، میں گبھرا کر اٹھی اور بھاگ کر اوپر گئی۔
کھلے بالوں کے ساتھ فاطمہ زاروشوررو رہی تھی اور اس کے بھائی اسکو چپ کرا رہے تھےمیں نے گبھرا کراسکو گلے لگا کر پوچھا "کیا ہوا ہے؟"اس نے جواب دینے کی بجائےاپنے دونوں ہاتھ میرے آگے کر دیئے میں نے غور سے اسکے ہاتھوں کو دیکھا تو مجھے مسئلے کی نزاکت کا احساس ہو گیا اس کا آم ایک طرف سے "چوسا"گیا تھا۔۔ یہ گھمبیر صورتحال دیکھ کر میں نے آدھی رات کو ہی عدالت لگانے کا فیصلہ کر لیا۔۔
میں نے اپنی کرسی کو سنبھالتے ہوئے اس چوسے ہوئے آم کو اپنے سامنے میز پر رکھ دیا اور کاروائی شروع کروا دی، تحقیقات سے پتہ چلا کہ میرے بیٹے باری باری اوپر گئےتھےان کو اوپر جاتے دیکھ کرفاطمہ کو کچھ شک سا گزرااور اس نے بھی اوپر جانے کا فیصلہ کیا جب وہ اوپر گئی تو فریج کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں اس نے جلدی سے اپنے آم کو اٹھایاتو یہ دیکھ کر اس کے دکھ کی انتہا ناں رہی کہ اس کا آم آدھا چوسا جا چکا تھا۔ یہ کہہ کر فاطمہ اپنے آم کو دیکھ کر پھرسے رونے لگی، میں نے معاملے کی شدت کو دیکھتے ہوئے آم کو اٹھا کر دوبارہ شاپر میں ڈال کر میز پر رکھ دیا۔
اب میں نے بڑے بیٹے کو غصے سے دیکھا تو اس نے جلدی سے بولنا شروع کر دیا کہ میں نے یہ نہں کھایا میں جب پانی پینے اوپر گیا، طہ فریج کو پکڑ کر بیٹھا تھا اور اس کے منہ پر آم بھی لگا ہوا تھا، مجھے دیکھ کر اس نے آم میرے منہ کو بھی لگا دیا میں نے خود نہں کھایا۔۔ اب فیصلہ مجھے کرنا تھا میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ فیصلہ سنایا کہ بیٹوں کی چاکلیٹ فاطمہ کو دے دی جائے گی اس فیصلے کو سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے اور میرے بیٹوں نے میرے پر "جانبداری" کا الزام لگا کر فیصلہ ماننے سے انکارکر دیا اور شور مچانا شروع کر دیا، صورتحال کو خراب ہوتے دیکھ کر میں نے "ارتغرل غازی" کو آواز دے دی۔۔ انہوں نے اوپر آتے ہی "کائی قبیلے" کو غصے سے یہ کہتے ہوئے للکارہ۔۔ خاموش ہو جاو۔۔ ان کی آنکھوں سے نکلتے شعلے دیکھ کر سارے کمرے میں خاموشی چھا گئی اور عدالت برخاست ہو گئی۔
خوش آمدید!۔۔ والدین کی سلطنت میں آپکا سواگت ہے اگر تو آپ والدین بن چکے ہیں پھر آپکو کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو آپکے لیئے میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو تیز کر لیں اور خود کو ایسی عدالتوں کے لیے تیار کر لیں جوہر وقت ہنگامی بنیادوں پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بروقت فیصلہ کر سکیں کیونکہ اگر آپ نے کسی کے گلاس میں "شیک" ڈالتے ہوئے ایک قطرہ بھی زیادہ ڈال دیا یا پھر بےدھیانی میں "پیزا" کو آدھا کرتے ہوئے چکن یا پھر ٹماٹر کا پیس ایک طرف زیادہ چلا گیا تو آپ اللہ کی نظر میں تو گنہگار ہوں گے ہی ساتھ ہی ساتھ آپکے بچے جب تک ماں باپ نہیں بنیں گے وہ آپکو کبھی معاف نہیں کریں گے اور آپ کو ہمیشہ یہ بات یاد کروائیں گے کہ کس طرح سے آپ نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے تھے۔ اللہ آپکا حامی و ناصر۔۔
اپنا اور اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کا خیال رکھیں اور دوسروں کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں۔