Nikah Ki Taqreeb
نکاح کی تقریب
یہ نکاح کی انتہائی سادہ سی تقریب تھی چند افراد دولہا کی طرف سے اور چند دلہن کی طرف سے شامل تھے۔ نکاح کے بعد سب اپنے گھر چل دیۓ۔
رات کو بیٹا اپنی والدہ سے کہتا ہے، کہ ماں اب بتاۓ کیا کرنا ہے رخصتی کیسے کرنی ہے؟ ماں نے کہا وہی کروں جو ہماری شریعت (اسلام)کہتی ہے۔
جاؤ جاکر دلہن کو لے کر آجاؤں۔
بیٹا بائیک پر اپنی منکوحہ کو چار جوڑوں میں لے آیا۔ نہ ہی جہیز کی ڈیمانڈ۔ نہ ڈھیر ساری رسومات۔ نہ ناچ گانا۔ نہ ویڈیوز موویز۔ کتنا آسان نکاح کوئی
نمودنمائش نہیں، دلہن بھی برضارغبت چند جوڑے لے کر وداع ہوگئ۔ چند دن تو کبھی ساس سسر کے کمرے کبھی ڈرائنگ روم میں پاۓ جاتے تھے۔ أہستہ آہستہ دولہے نے بیڈ خرید لیا اور کمرا ضرورت کی چیزوں سے بھر گیا۔ چیزیں تو آجاتی ہے لیکن رشتے خالص وفاوخلوص سے ہی نبھاۓ جاتے ہیں۔ چیزوں کی ڈیمانڈ پر رشتے ٹھکراۓ نہیں جاتے۔
آج انکا گھرچیزوں سے بھرا ہوا ہے، اور اخلاص و وفا سب سے ذیادہ ہے، جہاں انسان کو رشتے کی وجہ سے عزت ملے نہ کہ چیزوں و نام نسب سے یہی رشتوں کی بنیاد ہے۔ روپے پیسے سے آپ خلوص و وفا نہیں خرید سکتے یہ آپ کو بازارون میں نہیں بلکہ سادگی و قناعت میں ملے گا۔ یہ نکاح آجکل کے چکاچوند دور کے لئے بے مثال نمونہ ہے۔
حضرت علی و فاطمہ کے نکاح بھی اتنی ہی سادگی سے سرانجام دیا گیا تھا، جس معاشرے میں نکاح ایک مقذس بندھن تھا اور اسے زندگی کا حصہ بنادیا گیا بوجھ نہیں۔ جسطرح دیگر گھریلو امور سرانجام دیتے ہیں، اس طرح نکاح بھی زندگی کے امور میں سے ایک امور ہے۔
اسکے لئے سالوں مہینوں تیاری کے چکروں میں پیسوں کا اسراف رسومات کے لئے کتنا وقت اور پیسے کا ضیاع، اور جو سفید پوش لوگ ہوتے ہیں، وہ شادی کے نام پر ساری زندگی تیاگ کرکے اپنی بیٹیوں کا جہیز بناتے ہیں، اور غریب کی بیٹی تو جہیز نہ ہونے کی صورت میں شادی کی عمر ہی نکل جاتی ہے۔
نکاح کے اس مقدس بندھن کو ہم نے کتنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس لئے زنا وبے حیائی پھیلتی جارہی ہے، لڑکیاں پڑھ لکھ کر خود ہی کمانے کو اہمیت دیتی ہے، پھر معمولی تنخواہہ والا شریف لڑکا کسی بھی طور پر بھی شریک سفر قبول نہیں کیا جاتا۔
لڑکا اچھی تنخواہ والا ہو تو اسکے بھی ڈیمانڈز الگ کہ لڑکی گوری، لمبی، بال لمبے اتنی پڑھی لکھی غرضیکہ سب اپنے معیار کے مطابق لڑکا۔ لڑکی ڈھونڈتے ہیں، لیکن حسن سیرت و شرافت کو آخری نمبر دیا جاتا ہے جب کہ یہی وصف رشتوں کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے باقی سب چیزیں ختم ھو جاتی ہے۔
سب سے با برکت وہ نکاح قرار دیا گیا، جس میں سب سے کم خرچہ ہو۔ آجکل ایسے نکاح بھی ہوتے ہین جو سادگی کا عملی شاہکار ہوتے ہین اتنی نمودونمائش کے دور میں ایسے لوگ ہے، جو اپنی زندگی کو تصنع و بناوٹ سے دور کیے ہوۓ ہیں۔
اور شریعت کے طریقوں پر ہی اپنی اولاد کی خوشیوں کی پروان چڑھا رہے ہیں، یقینا اس معاشرے میں رہتے ہوۓ سادگی سے نکاح ورخصتی کرواتے ہوے عزیز واقارب کی طرح طرح کی باتوں کو بھی سہتے ہونگے لیکن انکی نزدیک اللہ اور اسکے رسول کے بتاۓ ہوۓ طریقے ہی قابل عمل ہے ایسے ہی نکاح ہی بابرکت ہوتے ہیں۔