Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Lakh Se Kakh Tak

Lakh Se Kakh Tak

لکھ سے ککھ تک

جیسے ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے ایسے ہی لاہور میں رہنے والا دنیا میں کہیں بھی چلا جائے اس کی تان لاہور پہ آ کے ہی ٹوٹتی ہے۔ اگر بارش برسے تو لاہور کی "کالیاں اٹّاں کالے روڈ" اور دھلے ہوئے درخت اور گرمی کے اثرات بڑھنے پہ لاہور کی نہر اور گر سردی رنگ دکھائے تو لاہور کا ٹھتھرتا دسمبر، دھند سے بند موٹر وے اور کھابوں میں بشیر و سردار دار الماہی کی یاد آنا فطری بات ہے۔ لاہور کی روزمرہ کی زندگی میں اتنا چل سو چل ہو رہا ہوتا ہے کہ پیش آنے والے واقعات کا کوئی نہ کوئی سرا لاہور کی کسی نہ کسی یاد سے جڑا نکل آتا ہے۔

کم و بیش دو دہائی قبل کی بات ہے کہ ایک نجی ادارے سے منسلک ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا اور اس وقت ہمارا تربیتی گروپ پینتالیس لوگوں پہ مشتمل تھا جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ ہفتہ وار چھٹی کے روز ہم یار دوست مل کے کسی نہ کسی نئی جگہ کا انتخاب کرتے اور دورے پہ نکل جاتے۔ طے یہ ہوا کہ جس جگہ بھی جائیں گے اس کے لئے مقامی بس سروس کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے ایک تو لاہور کے مختلف علاقوں اور اس کے راستوں کا علم ہوتا جائے گا اور دوسرا شہر کے اصل رنگ سے بھی آشنائی ہوگی۔

ایک روز قرعہ فال بی آر بی (بمباں والا - راوی - بیدیاں) نہر کے نام کا نکلا۔ تو حسبِ روایت لوکل بسیں بدلتے بدلاتے پہنچ گئے۔ وہاں جو دیکھا، سنا، پوچھا وہ الگ سے ایک موضوع ہے۔ یہاں واپسی پہ درپیش ایک واقعے کو بیان کرنا مقصود ہے جو اس تحریر کا محرک بنا۔ شام ڈھلنے سے کچھ پہلے واپسی کی راہ لی اور مقررہ روٹ کی بس پہ بیٹھ گئے۔ گاڑی چلی تو تھوڑی دیر میں مسافروں کے ساتھ خوانچہ فروش بھی شاملِ سفر ہونا شروع ہوئے۔ ایک جاتا تو کچھ دیر میں دوسرا آن ٹپکتا۔ بس کے اطرافی نظاروں میں ان پھیری والوں کی بولیوں کا بھی اپنا ہی رنگ تھا۔

ایک سٹاپ پہ کوئی صاحب عجلت میں بس سوار ہوئے اور آتے ہی اپنا بستہ دروازے کے برابر بیٹھے مسافر کی گود میں رکھ دیا۔ یہ پھیری والوں کا مخصوص طریقہ ہے کہ اس سے نا صرف بازو بھی راحت پاتے ہیں بلکہ ہاتھوں اور انگلیوں کو نچا نچا کے بات کی تاب بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ خیر وہ صاحب دانتوں کے لئے کوئی منجن بیچ رہےتھے کہ کیسے گوشت کا کوئی ریشہ دانتوں میں پھنس جانے پہ زبان بے قرار رہتی ہے اور کیونکر آدھی رات کو داڑھ کی اٹھنے والی درد ڈاکٹر کی جیب گرم کئے بغیر نرم نہیں ہو سکتی۔ اس بندے کی اصطلاحات اور بات کو سمجھانے کا انداز ایسا متاثر کن تھا کہ مجھ سمیت کئی لوگ اس کی باتوں کو دلچسپی سے سننے میں منہمک تھے۔

تربیتی پروگرام میں ان دنوں ابلاغی مہارت (کمیونیکیشن سکلز) کے پروگرام جاری تھے۔ اس تناظر میں منجن فروش کی ابلاغی اور سیلز کی مہارت براہ راست دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ جب بندہ اپنی معمول کی کاروائی کے بعد بس سے اتر گیا تو میرے ساتھ کی نشست پہ بیٹھے میرے ساتھی حافظ صاحب نے کہا کہ آپ بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ لیکن یاد رکھنا، اہناں دی گل لکھ دی دے تے دوائی ککھ دی ہندی اے (ان کی باتیں لاکھ روپے کی مگر دوا بے قیمت ہوتی ہے)۔ یعنی یہ حضرات صرف زبانی جمع خرچ سے ہی ایسی ملمع سازی کرتے ہیں کہ گاہک آپ شیشے میں اتر جائے اور یہ اپنی بےوقعت کی پڑیا بیچ کے یہ جا وہ جا۔

حافظ صاحب کے اس ایک جملے نے لکھوں (انمول سے) ککھ (بے مول) ہونے کا سفر بخوبی سمجھا دیا۔ ضروری نہیں جو دکھنے اور بتانے میں لاکھ کا ہو وہ حقیقتاً بھی لاکھ ہی کا ہو۔ عین ممکن ہے کہ وہ لاکھ نہ ہو بلکہ محض راکھ ہی ہو۔ جب مالک اپنے فضل سے اور ترس کھا کے خام سے کندن، عام سے خاص، کم تر سے نکال کر بالا تر اور ککھ (بے مول) سے لکھ (انمول) کر دے تو احتیاط کی ضرورت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کوئی ایک بڑا بول، کوئی ایک غلط وسوسہ، کوئی ایک تکبر کا شائبہ اس مقامِ قرب سے گرا سکتا ہے۔

کیونکہ نہج بدل جانے سے معیار بدل جاتے ہیں، توقعات بدل جاتی ہیں، امکانات و مقامات کی منازل بدل جاتی ہیں، لطف و کرم کے انعامات بدل جاتے ہیں اور فیصلہ ساز اگر قادر مطلق کے ساتھ ساتھ بے پرواہ بھی ہو تو اس کے فرمان و عدل کے مدارج بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یقینی کیفیت کو غیر متوقع اور ناممکن کو ممکن کرنا اس کے لئے بہت آسان ہے۔ کون جانے کہ کب کسی کی کیتی کرائی (محنت) کہاں آ کے صرف ایک لمحے میں پوچ (اکارت کر) دی جائے۔ اس کے سامنے محض عجز و انکساری، شکرگزاری کے اظہار اور ہمہ وقت فقط اس کے فضل و کرم کے طالب رہنے ہی میں امیری ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz