Labbaik Allahumma Labbaik
لبیک اللھم لبیک

گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے۔۔ گرم، خشک اور طویل۔ دن میں کوئی خاص مصروفیت کا بہانہ نہیں ملتا تھا تو گھروں کے پاس ہی ایک نئی لائبریری کا افتتاح ہوا تو لگا کہ ایک مصرف تو ہاتھ آ گیا ہے۔ فوراً ہی لائبریری کی رکنیت (ممبرشپ) کا کارڈ بنوایا اور لائبریری میں جا گھسے۔ شروع کے چند دن تو وہیں بیٹھ کے پڑھا کئے لیکن جلد ہی یہ معمول ترک کرنا پڑا کہ لائبریری کے اوقاتِ کار ہمارے مزاج سے میل نہ کھاتے تھے۔ جونہی کہانی اپنے نازک موڑ پہ پہنچتی تبھی وقفے کی گھنٹی بج جاتی۔ کھانے کے ساتھ ساتھ یہ صلوٰۃ کا بھی وقفہ کرتے تھے تو انہیں صلوٰتیں نہیں سنا سکتے تھے۔ مجبوراً کتابیں متعلقہ جگہ پہ رکھ کے گھر واپسی کی راہ لیتے۔
پھر سوچا کہ ایسے "ٹوٹوں" میں پڑھنے سے تو لطف ہی جاتا رہتا ہے، بہتر ہے کہ کتابیں گھر لے جائی جائیں اور ایک ہی نشست میں داستاں پڑھی جائے۔ لائبریری ایک دن میں زیادہ سے زیادہ تین کتابیں جاری کر سکتی تھی۔ ہم نے بھی مشغلہ ہی بنا لیا کہ صبح صبح لائبریری پہنچ کے تین کتابیں جاری کروانی اور زور لگا کے ٹھیک تین دن بعد ہی تینوں کتابیں واپس بھی کر دینی تاکہ اگلی تین کا نمبر آئے۔ کبھی تو کسی ایک موضوع پہ ہی تین کتابیں مل جاتیں تو کبھی مختلف موضوعات پہ مختلف کتابیں۔ اس وقت کی ذہنی استعداد اور کتب کی دستیابی کے مطابق ہم نے کچھ مخصوص موضوع وضع کر رکھے تھے اور ہمارا مطالعاتی شوق اسی مدار گھومتا رہتا تھا۔
ایسے میں ایک عشقیہ کتاب ہاتھ لگی۔۔ گلابی مائل سرخی رنگ کی جلد نے توجہ اپنی جانب کھینچی تھی، کتاب اپنے جثے سے کچھ زیادہ ضخیم نہ لگتی تھی تو وہیں کھڑے کھڑے اندازہ لگایا کہ اس کتاب کی باتیں ضرور براہ راست، مختصر، واضح (ٹو دا پوائنٹ) اور گہری ہوں گی۔ عشق کی داستاں کو کسی نئے نظریے، نئے زاویے اور نئے نکتہ نظر سے بیان کیا گیا ہوگا۔ عشق کی واردات، عشق کے لوازمات، عشق کے التفات و اتفاقات اور عشق کے انجام کی داستاں کسی نئے پیرائے میں زیبِ قرطاس کی ہوگی۔ تو اسی تجسسِ عشق نے کتاب کی جانب ہاتھ بڑھوا دئیے۔ کتاب ہاتھ آئی تو نام ہی بڑا منفرد اور سحر انگیز تھا۔۔ عشقِ الہیہ
کسی بیمارِ عشق سے پوچھو کہ اس کا روگ کیسے لگا تو جواب ملے گا کہ یہ لگایا نہیں جاتا، لگ جاتا ہے۔ اگر تو کوئی غالب کا پیروکار ہوا تو مژدہ یوں سنائے گا کہ:
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
لیکن اس کتاب "عشقِ الہیہ" میں جو عشق بیان ہوا ہے اس کی رمز تو کچھ اور ہی تھی۔ اس عشق کا آغاز خود سے نہیں ہوتا بلکہ خود سے کیا جاتا ہے۔ من کو اس طرف مائل کیا جاتا ہے، تن کو اس آتشِ عشق میں جھونکا جاتا ہے، دھن کو اس عشق کے نام پہ لٹایا جاتا ہے۔ بابا یحییٰ خان نے کیا خوب کہا کہ:
عاشق چور فقیر خدا تُوں منگدے گُھپ ہنیرا
اِک لٹاوے، اِک لُٹے، اِک کہدے سب کجھ تیرا
ذی الحجہ کے ماہِ مقدس میں فریضہ حج کی ادائیگی کے خوبصورت موقع پہ یہ کتاب دماغ کے کینوس پہ ابھر آئی۔ تمام مناسکِ حج، احرام کی دو ان سلی چادریں، خوشبو و عطر سے عاری بدن، بکھرے بال، بیت اللہ کے چکر، بی بی ہاجرہ کی سنت میں سعی کی دوڑ، میلوں کا سفر، رت جگے، الفت اور رازو نیاز، قربانی، بال کٹوانا (حلق)، رمی اور پھر سے بیت اللہ کے چکر۔۔ یہ سب اپنے بھیتر جو معانی، مفہوم، مقصد اور محرک رکھتا ہے وہی یقیناً اس عشق کے فلسفے کی بنیاد ہے۔
دُنیا و مافیا سے بے نیاز، سب آرائشوں و زبائشوں سے مبّرا، سفر کی تھکان چہرے پہ سجائے، بال گرد سے اٹّے و بکھرے ہوئے محض دو چادروں میں ملبوس یہ عشق کا مسافر اپنے محبوب کے در پہ پہنچا ہے اور بے اختیار اس کے گھر کے بس "سات" چکر ہی لگاتا ہے۔ کوہ صفا و مروہ پہ ماں کی اپنی اولاد سے محبت جیسے لافانی جذبے کو سلام پیش کرنے کو بھی بس "سات" چکر ہی لگاتا ہے۔ منزل در منزل چلتا ہے کہ محنت ہی میں عظمت و کامیابی کا راز مضمر ہے۔ جہاں موقع ملتا ہے سربسجود ہو کے رازونیاز بھی جاری رکھتا ہے۔ کچھ شکوے ہوں گے تو کچھ التجائیں، کچھ فرمائشیں ہوں گی تو کچھ دعائیں، کچھ عرضیاں ہوں گی تو کچھ اقرارنامے۔ کہیں یہ عشق چٹیل میدانوں میں ساری رات جگائے گا تو کہیں یہ پتھریلی راہوں سے کنکر چننے پہ لگا دے گا۔
جھوٹی اناوَں، بے ہنگم اداوَں، شیطانی وفاوَں اور لایعنی جفاوَں سے چھٹکارہ اس سارے عشق کا لازمی جزو ہے۔ استعارتاً جانور کا خون بہا دینا اس امر کی علامت ہے کہ اگر اس عشق کی راہ میں اپنے اندر کا جانور باہر آیا تو اسے بھی ایسے ہی قربان کیا جائے گا۔ اپنی نفسانی خواہشات کا گلا ایسے ہی گھونٹا جائے گا۔ راہِ حق میں اگر اپنی جان قربان کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے گا۔ آج یہ باہر کو پھینکے ہوئے کنکر دراصل اندر اپنے نفس کو مارے ہیں کہ تابع فرماں ہو جائے کہ دنیا سنگ ریزی کو کیسے تیار بیٹھی ہے۔
آخر میں سر منڈھا کے عزت کے سب ظاہری اسباب ختم کرکے پھر سے دیوانہ وار انہی راہوں کو دوڑتا ہے کہ جیسا میں آیا ہوں، ویسا ہی قبول کر لے اور آج سے بس اپنی ہی طرف کابنا کے رکھ لے اور عالمِ وجد میں محبوب کو پکارتا ہے:
لبیک اللھم لبیک

