Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Koi Hor Hai

Koi Hor Hai

کوئی ہور ہے

بھلے وقتوں میں ڈاکٹر بھی بھلے مانس ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ بات ہی ثبوت کو کافی ہے کہ گلی کے نکڑ والی کریانے کی دکان بھی ڈاکٹر کی پوری دکانداری سے بڑی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر سے شفا کے ساتھ ساتھ کفایت شعاری کا بھی درس ملتا تھا۔ تین پڑیاں جن میں چند رنگ برنگی چھوٹی بڑی گولیاں اور ساتھ میں ایک عدد ٹیکہ۔ ٹیکہ اس سارے پروگرام میں لازم و ملزوم تھا۔ کیونکہ مریض کا بھی اس بات پہ ایمان کی حد تک یقین تھا کہ اگر ٹیکہ لگے گا تو ہی اس بخار یا بیماری سے جان چھٹے گی۔ بہرکیف ڈاکٹر صاحب کی ٹیکہ لگاتے ہوئے کی عجیب سی کھسیانی ہنسی آج تک راز ہی رہی۔ ڈاکٹر ایسا کفایت شعار ہوتا کہ پورے کے پورے گاوَں کو ایک ہی سرنج سے بھگتا دیا کرتا تھا۔

تب تک شاید یہ آوارہ مزاج وائرس دریافت نہ ہوئے تھے یا ان کا شوقِ سیاحت ابھی بامِ عروج کو نہ پہنچا تھا یا پھر انسانی جسم کی مدافعت ابھی اتنی مضبوط تھی کہ یہ وائرس کماحقہ اپنا کام نہ دکھا پاتے تھے۔ پھر ارتقائی دور نے کروٹ لی۔ جہاں شہر، قصبے اور گاوَں جدیدیت اور مادیت کا شکار ہونے لگے تو ڈاکٹر، کون سے کھیت کی مولی تھے، وہ بھی لپیٹ میں آ گئے۔ مریضوں کو بھی اعلیٰ عہدے اور القابات ملنے لگے کیونکہ مریضوں میں سے اب انہیں گاہک (کسٹمر) نظر آنے لگے تھے۔ ڈاکٹر کی کھسیانی ہنسی بھی پیشہ وارانہ مسکراہٹ سے بدل گئی اور دکانداری اب ذرا وسیع پیمانے پہ چمکنے لگی تھی۔

زمانے کی تلخیوں، شکایتوں، بے وفائیوں، بے رخیوں اور ڈاکٹروں کے بھاری مادی اور کاری نشتروں سے کچھ دیر توجہ ہٹانے کی غرض سے حکایتوں، کہانیوں، چٹکلوں کا سہارا ڈھونڈا گیا۔ بظاہر تو ان حکایتوں، کہانیوں اور چٹکلوں میں ہنسی مذاق کی بابت ہی کوئی ہلکی پھلکی بات ہوتی ہے لیکن اگر اس کے ظاہری معنوں سے پرے اس کے خفی معنی اور باطنی رموز کو بغور دیکھا جائے تو کوئی ایک تلخ حقیقت یا کوئی گہرا سبق ضرور پوشیدہ مل جاتا ہے۔ اسی لئے لطیف پیرائے میں کی گئی ظنز کے نشتر عموماً کم ہی چبھتے ہیں۔

ایسا ہی ایک سانحہ کسی حکایت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کوئی صاحب خوش و خرام اپنے سفر پہ گامزن تھے کہ راستے میں طوفان و بادوباراں نے آ لیا۔ ہواوَں کی شدت ایسی تھی کہ موصوف کہیں کے کہیں لڑھک گئے۔ اس ساری کارستانی میں بالآخر قدرت کو کچھ ترس آیا اور ہاتھ ایک درخت کی شاخ کو لپٹ گیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مافق کچھ وقتی آسرا ہوا۔ مسافر کو سمجھ لگ کہ اسی شاخ سے معلق رہنے ہی سے جان بچے گی، لیکن قدرت کو چونکہ اصل سبق دینا مقصود تھا تو جلد ہی مسافر کا زورِ بازو جواب دینے لگا۔ پھر جیسا کسی بھی مشکل اور امتحان کے آخیر وقت میں ہوتا ہے۔

مسافر نے اسی ذات کو اپنی مدد اور بچاوَ کے لئے پکارنا اور یاد کرنا شروع کیا کہ جس کی طرف سب سے پہلے توجہ جانی چاہئیے تھی۔ چوٹ میں درد تو ہوتا ہے، اس لئے مسافر کی فریاد میں ایسی تاثیر تھی کہ فوراً ہی کوئی غیبی ندا آئی کہ " اگر بچنا چاہتے ہو تو شاخ کو چھوڑ دو"۔ فی الوقت تو یہی اکلوتا آسرا دستیاب تھا تو اسے چھوڑنے میں موت نظر آ رہی تھی۔ اس لئے اس ندائے غیبی کو کوئی وسوسہ قرار دیا جو اس سے یہ آخری سہارا بھی چھین لینا چاہتا تھا۔ تو مسافر وہیں سے پھر پکارا:

کوئی ہور ہے (مدد کے لئے کوئی اور یہاں ہے)

لیکن کوئی اور وہاں ہوتا تو آواز دیتا۔۔ مسافر وہیں لٹکے لٹکے اگلے جہاں سدھار گیا۔ صبح علاقے کے لوگوں نے دیکھا کہ کوئی راہ چلتا مسافر درخت کی شاخ سے لٹکا مر گیا حالانکہ اس کے قدموں سے محض دو فٹ کے فاصلے پہ ہی زمین تھی۔

حکایت کے ان تین لفظوں (کوئی ہور ہے) میں کیسی حقیقت بیان کر دی گئی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی ایسی ذات ضرور ہے جو ہمارے سب دکھ درد اور غموں کا مداوا کر سکتی ہے۔ ایک ایسی ذات ضرور ہے کہ دُنیا و مافیھا اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ایک ایسی ذات ضرور ہے کہ جس کے کُن کی محتاج ہر چیز ہے۔ چینی کی مٹھاس، خنجر کی کاٹ، آگ کی حدت، دوا سے شفا، سب تاثیروں، سب تدبیروں اور سب تقدیروں پہ وہی قابض ہے۔ سو جو اس ذات کو جانتے ہیں، ان پہ لازم ہے کہ اس ذات کو اور اس ذات کی مانیں۔ اس کے کہے پہ ایمان لانا اور عمل کرنا ہی کامیابی کی طرف لے جائے گا۔ بصورتِ دیگر اسی مسافر کی طرح کہیں بیچ راہ ہی میں معلق اور مغلق (کھاتہ بند) ہو جائیں گے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed