Taleem Aur Sarkari Mulazmat
تعلیم اور سرکاری ملازمت
ایک وڈیو کلپ نظر سے گزرا، جس میں ایک نوجوان راج مزدوری کرتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے۔ دوران گفتگو نوجوان نے بتایا کہ اس کے پاس ایم فل ریاضی سند کے ساتھ ساتھ ایم اے پشتو کی سند بھی ہے۔ مگر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے تین سال سے راج مزدوری کر رہا ہے اور اینگزائٹی سے بھی دوچار رہ چکا ہے۔ میں تعلیم یافتہ نوجوان کی بے روزگاری پر افسردہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اس کم ہمتی پر بھی کف افسوس ملتا رہ گیا۔
اور سوچا کہ اتنی تعلیم کے ساتھ وہ راج مزدوری کیوں کر رہا ہے۔ کیا وہ کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں تدریس نہیں کر سکتا تھا یا ٹیوشنز پڑھا کر اپنی روزی کا بندو بست نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تعلیم صرف اور صرف سرکاری نوکری کے لیے ہی حاصل کی تھی وہ نہ ملی تو دنیا اندھیر ہوگئی، بقول عدیم ہاشمی مرحوم۔
یہ سبھی ویرانیاں اس کے چلے جانے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
ہمارے نوجوان اور ان کے والدین تعلیم کا صرف ایک مقصد سامنے رکھتے ہیں اور وہ ہے سرکاری نوکری۔ اگر سرکاری نوکری نہ ملے تو والدین ہی اپنی اولاد کو طعنوں کی بھاڑ پر رکھ لیتے ہیں اور نوجوان بھی فقط اسی ایک مقصد کے حصول کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں فرسٹریشن، ڈپریشن اور ایینگزائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی عمر رواں کا ایک ایک دن گنتے ہوئے مزید احساس محرومی کا شکار ہوکر وہ ریاست، معاشرے اور تعلیم کو کوستے ہیں۔
مگر کسی متبادل روزگار کی طرف دھیان نہیں دیتے، کیا سرکاری نوکری ہی آخری آپشن ہے، کیا یہی زندگی کا واحد مقصد ہے، کیا یہی ایک راستہ کامیابی کی طرف جاتا ہے۔ نہیں اور بھی کئی راستے ہیں، کئی آپشنز ہیں۔ صرف ذھن اور آنکھیں کھولنے کی دیر ہے۔ آپ کو ارد گرد کئی اپرچونٹیز بکھری ہوئی ملیں گی۔ مشہور سرمایہ کار اور ڈائیوو کمپنی کے مالک "کم وو چونگ" نے اپنی کتاب کا نام"every street is paved with gold"رکھا ہے۔
کتاب میں وہ اپنی زندگی کی جدوجہد بیان کرتا ہے کہ کیسے وہ ایک اخبار بیچنے والے ہاکر سے ایک بزنس ٹائیکون بنا۔ اس نے اپنے ذھن کو اپنے حالات کا غلام بننے نہیں دیا، بلکہ ہمیشہ مثبت ذھن کے ساتھ اپنے حالات کو بہتر کرنے کے لیے کوشش کرتا رہا اور کامیابی کی ہمالیہ پر اپنا نشیمن بنایا۔ ہر گلی سونے سے لپی ہوئی ہے، مگر دیدۂ بینا چاہیے۔ تعلیم کبھی بھی روزگار کے لیے حاصل نہیں کرنی چاہیے، بلکہ یہ تو صرف اور صرف اپنے ذھن اور صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کے لیے حاصل کی جانی چاہیے۔
تعلیم اگر آپ کو تدبر، حوصلہ، اور دور اندیشی نہیں دیتی تو وہ تعلیم نہیں، بلکہ وقت کا ضیاع ہے۔ یہ نوکری حاصل کرنے کا آلہ نہیں، بلکہ بہتر زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ تعلیم کسی بھی فن یا پیشے کو بہترین انداز میں پیش کرنے کاہنر سکھاتی ہے۔ لہذہ میری اپنے معاشرے کے والدین سے عاجزانہ گذارش ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور ساتھ یہ شعور دیں کہ یہ نوکری اور روزی کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیم ذھن و روح کی بالیدگی کے لیے، بہترین باضمیر انسان بننے کے لیے حاصل کریں۔
اور یہ کہ سرکاری نوکری ہی حرف آخر نہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور اپنی صلاحیت اور مہارت کے مطابق کوئی بھی روزگار چن لیں اور اس روزگار کو اپنی ترقی و خوشحالی کا زینہ بنالیں۔ کسی بھی روزگار میں کوئی برائی نہیں، برائی کم حوصلگی، بے صبری، کوتاہ بینی، کوتاہ اندیشی، حسد اور لالچ میں ہے اور نوجوانوں سے بھی درخواست ہے کہ صرف ایک مقصد یعنی سرکاری نوکری کو ہی دنیا کی آخری اپرچونٹی نہیں سمجھ لینا چاہیے۔
کئی بہترین آپشن موجود ہیں، بس کھلے ذھن کی ضرورت ہے۔ کوئی روزگار کوئی کاروبار چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، شروعات مشکل ہوتی ہے، مگر پھر راستہ خود بخود بنتا چلا جاتا ہے۔ ہمیشہ اوپر چڑھنے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی منزل کو پانے کے لیے پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہے اور پھر سنگ میل خود بخود طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کامیابی کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوؤں کو حسرت سے دیکھنے کی بجائے، ان کے پہلے قدم کو دیکھیں کہ وہ کہاں سے چلے تھے اور کن کن خارزاروں سے گذر کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔