Rail Ki Nayi Luxury Bogian
ریل کی نئی لگژری بوگیاں
علی رضا عابدی بی بی سی اردو کے نامور صحافی اور براڈ کاسٹر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی اردو کے لیے کیے گئے دستاویزی پروگراموں کو تصنیف میں ڈھالا تو جرنیلی سڑک، ریل کہانی اور شیر دریا جیسی تخلیقات ہمیں پڑھنے کو ملیں۔ ان کی کتاب جرنیلی سڑک میں انہوں نے پشاور سے کلکتہ تک براستہ جی ٹی روڈ سفر کا احوال لکھا ہے جس میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ
"میں لاہور سے براستہ واہگہ بارڈر انڈیا میں داخل ہوا۔ انڈیا میں جی ٹی روڈ پر اپنا سفر شروع کرنے کے لیے ٹاٹا کی بس میں بیٹھا تو جیسے اچانک کسی گزرے ہوئے قدیم زمانے میں پہنچ گیا ہوں۔ بس کی سیٹیں ٹوٹی ہوئی اور کیلیں نکلی ہوئی تھیں جبکہ لاہور میں بسیں نئی اور آرامدہ تھیں۔ لیکن ایک فرق تھا کہ انڈیا کی بسیں اس کی اپنی تھیں جبکہ پاکستان نے وہ آرامدہ بسیں درآمد کی تھیں"۔
اسی طرح جب ہم بچپن میں انڈیا کی فلمیں دیکھتے تو ان کی پرانی اور کھٹارہ گاڑیوں کا موازنہ اپنے ملک کی چمکتی فراٹے بھرتی گاڑیوں سے کر کے ان کی غربت اور افلاس پر حیران ہوتے تھے۔ مگر اب جبکہ انڈیا 600 ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کے ساتھ دنیا کے چند امیر ممالک کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہم 7 ارب (پرائے) ڈالرز کے زرمبادلہ کے ساتھ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائے بے بسی سے سب ممالک کو دیکھ رہے ہیں تو سمجھ آ رہی ہے کہ پرائی چپڑی ہوئی روٹی سے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی خشک روٹی بہتر ہوتی ہے۔
انڈیا نے ہمیشہ اپنی بنائی ہوئی مصنوعات سے اپنی مارکیٹ چلائی اور اپنے عوام کو اپنی کمزور معیار کی اشیا کا عادی بنایا اور چادر کے مطابق پاؤں پھیلائے مگر ہمارے اہل اقتدار جو شروع دن سے ہی جاگیردار، بیوروکریٹس رہے ہیں نے بہترین سے بہترین اشیاء درآمد کر کے پاکستان کا نام نہاد خوشحال ماڈل پیش کیا۔ کمائی چاہے دو آنے رہی یا دو روپے عیاشی ہمیشہ اوور لوڈڈ ہی کی۔ بہترین سے بہترین سامان تعیش، گاڑیاں، بسیں، اے سیز، اور نہ جانے کیا کیا۔
پھر موٹرویز کا دور آیا۔ جس ملک میں کروڑوں بچوں کو تعلیم کی سہولت حاصل نہیں ہے، ہسپتال اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران ماؤں کی ہلاکتیں عام ہیں۔ بجلی اور گیس کی کمی کی وجہ سے کارخانے تو کیا گھر تک نہیں چل پا رہے وہاں اربوں روپے قرض لے کر موٹرویز کا جال بچھایا گیا اور پھر ان موٹرویز کو دوبارہ قرض کی خاطر گروی رکھ دیا گیا۔ جہاں سائیکل تک چین سے درآمد کی جاتی ہے وہاں میٹرو اور بی آر ٹی کے لیے اے سی اور دیگر لگژریز سےآراستہ بسیں درآمد کر لی گئیں۔
500 ارب روپے قرض لے کر چند کلومیٹر پر اورنج ٹرین جیسی عیاشی کا چونچلا بھی کر لیا گیا۔ ایک انگریز سرمایہ دار کا قول پڑھا تھا کہ جو شخص غیر ضروری اشیاء خریدتا ہے اس کو ایک دن گھر کی ضرورت کی اشیاء بیچنی پڑتی ہیں۔ اور یہ قول کیا ہی خوب پاکستان پر صادق آتا ہے کہ اب پاکستان اپنی املاک تک گروی رکھ چکا ہے۔ اس سب کے باوجود کارواں والوں کو احساس زیاں تک نہیں۔
ایسے بے حس حکمران، ایسے بے حس معیشت دان، ایسے بے حس سرمایہ کار اور ایسی بے حس عوام آخر کب کسی نے دیکھی ہوگی۔ خاکم بدہن کیا پاکستان کا یہی مقدر ہے؟ بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ بھیک مانگ رہے ہیں، گندم اور سبزیاں تک پیدا کرنے اور خریدنے سے قاصر ہیں۔ سابقہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لالے پڑے ہیں اور ایک اور پر تعیش خبر آئی ہے کہ پاکستان میں چین سے بہت ہی ہائی کلاس لگژری ریل کی بوگیاں آ گئی ہیں۔
اس میں بیٹھنے والا جہازوں کا سفر بھول جائے گا۔ مگر حیران ہوں کہ یہ بوگیاں چلیں گی کیسے۔ انجنوں کا کیا ہوگا۔ ایندھن کہاں سے آئے گا اور آخر خسارے میں جانے والی ریلوے ان کی قیمت کیسے ادا کرے گی؟ مگر اہل اقتدار کا کیا ہے۔ ان کو کمیشن کا حصہ بقدر جثہ مل گیا ہوگا ساتھ ہی پرانی بوگیوں کا سکریپ بیچ کر کھا لیں گے اور پھر یہ نئی بوگیاں بھی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد کسی سکریپ کے قبرستان میں دفن ہو جائیں گی۔
آخر ہماری یہ فاقہ مستی کب تک جاری رہے گی۔ یہ کب تک رنگ لائے گی۔ آخر کب تک ہماری تعیشات ہماری ضروریات پر فوقیت حاصل کرتی رہیں گی۔ آخر کب ہمارے یہ جاگیردار، سرمایہ دار، اور افسر شاہی طبقے سے آئے رہنما ملک اور عوام کی بنیادی ضروریات کو درخور اعتنا سمجھیں گے۔ آخر کب ہماری بے بس لاچار عوام کی سنی جائے گی۔ کب یہ احساس جاگے گا کہ ایئر کنڈیشنڈ بسیں، بیش قیمت گاڑیاں، پانچ اور چھ لائن کی سڑکیں اور اونچے اونچے مینار ترقی کا معیار نہیں ہیں۔ بلکہ ملک حقیقی جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، انصاف، امن، تعلیم، یکساں نظام زندگی، زرعی انقلاب اور نت نئے ایجادات سے ترقی کرتے ہیں۔