Kya Election Naguzeer Hain? (2)
کیا الیکشن نا گزیر ہیں؟ (2)
جب روم جل رہاتھا تو نیرو چین کی بانسری بجا رہاتھا یہ ضرب المثل آج ہمارے سیاسی رہنماؤں پر صادق آتی ہے جو ملک کو ڈیفالٹ کے دلدل میں دھنستا دیکھ رہے ہیں اور اس کا کوئی دیر پا حل ڈھونڈنے کی بجائے آپس میں سیاسی شطرنج کی بساط بچھائے محو مقابلہ ہیں۔ ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے پینترے بدل بدل کر داؤ کھیل رہے ہیں جبکہ ان کےبھوکے ننگے حامی ارد گرد کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور ان کے داؤ پیچ پر دل کھول کر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کی جاچکی ہیں، نگران وزرائے اعلی نامزد ہو چکے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ 90 دن میں صوبائی الیکشن منعقد ہونگے۔ اس کے ساتھ ہی سپیکر قومی اسمبلی نے مسلسل تین دن پی ٹی آئی کے ممبران کے استعفے منظور کرکے قوم کو خوب محظوظ کیا اور قوم نے بھی خوب قہقہے لگائے۔ پی ڈی ایم نے عندیہ دیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن نہیں لڑے گی۔
اب ڈرامے کا اگلا ایکٹ کیا ہوگا اس کے لیے عوام کی نظریں سٹیج پر مرکوز ہیں۔
مگر ٹھہریئے۔۔ اس ڈرامے کے اگلے ایکٹ کے بارے میں تماشائی تو کیا تماشہ بازوں کو بھی نہیں پتہ کہ آگے کیا کرنا ہے یا کیا ہوگا۔ کیونکہ جو سکرپٹ 1973 میں سیاستدانوں نے اپنے لیے بطور لائحہ عمل منظور کیا تھا اس کو بھلایا جا چکا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا معاملہ وہ والا ہے کہ؎
نہ ہاتھ باگھ پر ہے نہ پا ہے رقاب میں
اندھا دھند بھاگتے بھاگتے ایک بند گلی میں جا پہنچے ہیں جس سے کیسے نکلنا ہے یا دیوار کی دوسری طرف کیا پیش آنے والا ہے کسی کو پتہ نہیں ہے۔
جو قومیں اپنے قوانین و روایات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتیں وہ اسی طرح گمراہ ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے آئین و روایات میں اپنے معاشی، سیاسی اور معاشرتی مشکلات کا حل ڈھونڈتی ہیں اور پیش آمدہ کٹھنائیوں سے گزر جاتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے آئین کا کچھ حصہ اپنے مفادات کے لیے مسخ کر دیا اور کچھ کو ترک کر دیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے یا پھر مخالف کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے آئین کو پائمال کیا مگر عوام کے سامنے اس کے عظمت کے گن گا گا کر خود کو اس کا سب بڑا حامی و محافظ بھی ثابت کیا یعنی؎
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
فی الحال جو صورتحال ہے اس میں ایک خبر تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کسی طرح اپنی اس مختصر مدت کو بڑھا کر ایک سال مزید اقتدار میں رہ کر عوام میں اپنا امیج کسی طرح بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو کہ ایک احمقانہ اور ناممکن العمل خیال ہے کیونکہ ملک کی موجودہ صورتحال سال دو سال میں کسی طرح بھی سنبھلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہاں کہیں سے قرض یا امداد حاصل کرکے پرانے جعلی طریقوں سے سبسڈیز دے کر اور سیاسی شعبدے دکھا کر عوامی حمایت شاید حاصل ہو جائے مگر اس کے اثرات ملک کے مستقبل پر کیا ہونگے وہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اگر موجودہ حکومت آئینی مدت پوری کرنا چاہتی تھی تو سپیکر صاحب نے پی ٹی آئی ممبران کے وہ استعفے جو انہوں نے "اصولی" موقف کے تحت روک رکھے تھے اتنی جلد بازی میں کیوں قبول کر لیے۔ ان خالی شدہ نشستوں پر 3، 4 ماہ کی مختصر مدت کے لیے ہونے والے انتخابات پر اٹھنے والے اخراجات کیا پہلے ہی تباہ حال ملکی معیشت پر بے جا بوجھ نہیں ہونگے۔
ملک کے سیاسی مستقبل بارے دوسری خبر معروف کالم نگار نے دی ہے کہ کوئی قومی یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت تین سال کے لیے بنائی جائیگی وہ ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھا کر سیاستدانوں کے حوالے کر دیگی۔ اگر ایسا ہی ہے تو آئین میں درج الیکشن کا ٹنٹا کس لیے ہے جب آئین میں حکومت کی تبدیلی اور قیام کا مکمل طریقہ کار موجود ہے تو پھر جگاڑ لگانے کی تجویز کیوں۔۔ میرے خیال میں آئین میں موجود طریقہ کار کے متوازی کسی جگاڑ کی تجویز بھی ایک قومی جرم کے مترادف ہے۔ اگر ہم ماضی میں آئین پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنے سیاسی اور معاشی امور انجام دیتے تو آج پاکستان ان مشکلات کا شکار نہ ہوتا۔
اسی عنوان کے تحت اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے معاشی مشکلات کا حل سیاسی استحکام میں ہے، سیاسی استحکام پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب حکومت ہی لا سکتی ہے۔ یہی پانچ سالہ حکومت مشکل فیصلے کرکے پاکستان کی معیشت کو استحکام کی طرف لے کر جائے گی۔ لہذہ سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کا راستہ صرف اور صرف الیکشن سے ہو کر جاتا ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد کا دعوی ہے کہ ان کی ترجیح سیاست کی بجائے ریاست کو بچانا ہے تو اس وقت الیکشن کی طرف جا کر وہ اس دعوے کو سچ ثابت کر سکتے ہیں۔ وگرنہ یہ دعوی بھی ووٹ کو عزت دو کی طرح کا ایک سیاسی نعرہ ہی ہے۔