Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. History Sheet

History Sheet

ہسٹری شیٹ

چھوٹے بڑے ہو گئے یہ سنتے سنتے کہ پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اب سمجھ آ رہی ہے کہ اصل نازک صورت حال کیا ہوتی ہے۔ اس قدر نازک صورتحال ہے کہ اہل اقتدار سے ادھر کے فنڈز ادھر لگا کر، جعلی طریقوں سے بھی قابو میں نہیں آ رہی۔ یہ سب کیسے اور کیونکر ہوا اس پر بہت سے ماہرین معاشیات، سیاسیات اور عمرانیات مختلف پہلوؤں سے اپنا نقطۂ نظر پیش کر رہے ہیں۔

آزادی کے بعد سے ہی ہم سیاسی بحران کا شکار رہے۔ 1958 تک ہمارے ہاں طوائف الملوکی کا دور دورہ رہا، ہر دو تین مہینے بعد وزیراعظم کسی خانساماں کی طرح بدلے جاتے رہے اور ملک آئین کو ترستا رہا۔ پھر ملک نے پہلا طویل مارشل لا دیکھا۔ قصہ مختصر یہ سیاسی ابتری اب تک اس ملک کا مقدر ہے۔ اس کھینچا تانی میں نوزائدہ ملک کی معیشت بھی بن باپ کے بچے کی طرح توجہ اور شفقت سے محروم رہی۔ قرض اور امداد کے بل پر چلنے والی معیشت کو کبھی بھی ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

کم آبادی اور محدود ضروریات کی وجہ سے ملک تنگ معاشی چادر میں بھی کسی نہ کسی طرح چلتا رہا۔ انگریز جو زرعی، نہری نظام چھوڑ کر گیا وہ بھی ضروریات زندگی کو پورا کرتا رہا۔ مگر ایسا آخر کب تک چلتا۔ ملک کی آبادی اور ضروریات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں اور پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہوتی گئی۔ ہم جو اہک زرعی ملک کے باسی تھے اپنی گندم کی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہو گئے، دالیں بیرون ملک سے منگوا کر استعمال کرنے لگے، کپاس جو کبھی ہم ایکسپورٹ کرتے تھے اپنی ضرورت کے لیے بھی درآمد کرنے پر مجبور ہو گئے۔

زراعت کی کمی کا ایک بڑا سبب رہائشی سوسائٹیوں، ذاتی فارم ہاؤسز اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کا بلا کسی روک ٹوک پھلنا پھولنا بھی ہے۔ بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکونز نے قبضہ مافیا کا کردار ادا کرتے ہوئے زرعی زمینوں کو بے دردی سے رہائشی سوسائٹیز میں تبدیل کر دیا، سونا اگلنے والی زمینوں پر سیمنٹ کا جنگل اگ آیا۔ دو تین قابل ذکر ادارے جو ہم نے بنائے وہ بھی ہماری سیاسی مداخلت، لالچ اور عدم توجہی کی بنا پر خود اپنا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ بجلی اور گیس کی مس منیجمنٹ نے معیشت کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا۔

بجلی کے پرائیویٹ رینٹل پلانٹس کے ساتھ غیر دانشمندانہ معاہدے کیے گئے۔ بجلی کی پیداوار کے لیے نئے راستے ڈھونڈنے کی بجائے ان رینٹل پلانٹس کو اتنا طول دیا گیا کہ اب گلے کی ہڈی بن چکے ہیں نہ نگلنے کے نہ اگلنے کے۔ سرمایہ کاری کے لیے پہلی شرط آسان دفتری نظام، امن و امان، عدل اور انصاف ہوتی ہے جس کی فراہمی میں ہمارے اہل اقتدار کو نہ تو کبھی دلچسپی رہی نہ ہی اس طرف توجہ دی۔ یہ سہولیات دینے میں شاید ہمارے جاگیرداروں، سیاستدانوں اور افسر شاہی کو اپنا مالی نقصان نظر آتا رہا۔

ہمارا تعلیمی نظام دن بدن تنزل کی منازل طے کرتا اس نہج پر آ پہنچا ہے کہ طلباء کو تعلیم پوری کرنے کے بعد معلوم نہیں ہوتا کہ اب وہ کیا کریں اور کس طرف جائیں۔ عملی زندگی اور ہماری تعلیم کے درمیان زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ یہ تعلیمی نظام ایسے کند اور آگہی سے محروم ذہن پیدا کر رہا ہے جو ملک کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے کی بجائے ملک پر بوجھ بن رہے ییں۔ تعلیم کا یہ حشر بھی ہمارے جاگیردار سیاسی آقاؤں اور خون آشام اشرافیہ کی بقاء کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔

ہمارے سیاستدان اور اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے عہدوں اور مفادات کو ہی مدنظر رکھا اور کبھی بھی اعداد و شمار کی جمع آوری اور درستگی کی طرف توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں کسی بھی شعبے کے اعداد و شمار کبھی بھی مکمل اور قابل اعتبار نہیں رہے۔ ہمیشہ ضرورت پڑنے پر اٹکل پچو سے ہی کام لیا گیا۔ حتیٰ کہ اب بین الاقوامی ادارے بھی ہمارے اعداد و شمار کو تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ ہماری آدھی سے زیادہ معیشت غیر مندرج شکل میں ہے اور اندازوں کی بنیاد پر چلتی ہے۔

ہماری مردم شماری متنازع رہتی ہے، ہماری خانہ شماری بھی قابل یقین نہیں رہی۔ ہماری انڈسٹری، خوردہ فروش، سرکاری و پرائیویٹ سکولز، سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال، ریڑھی بان، بے روزگار افراد، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد، متوسط طبقے اور غربت کی لکیر سے نیچے افراد کے اعداد و شمار اکھٹے کرنا کبھی بھی قومی فریضہ نہیں سمجھا گیا۔ جبکہ اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار یقینًا فقط خانہ پری کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہیں۔

یہ غلط اور ادھورے اعداد و شمار بھی اہل سیاست اور اشرافیہ کے مفاد کے عین مطابق ہیں کیونکہ اصل اور مکمل اعداد و شمار ملک کے اندر اور باہر ان کی شرمندگی میں اضافہ ہی کریں گے۔ جب اعداد و شمار ہی درست نہیں ہونگے تو پھر منصوبہ بندی کیا خاک ہوگی۔ خوراک کی مقدار، سکولز کی تعداد، ہسپتالوں کی تعمیر، روزگار کا بندوبست کیا بغیر یقینی اعداد و شمار کے ممکن ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے ٹیکس کا نظام جو اب تک سیدھا نہ ہو سکا اس کی بڑی وجہ یہی اعدا و شمار کا صحیح نہ ہونا ہے۔ جب انڈسٹری، زراعت، خوردہ فروش، پرائیویٹ سکول و ہسپتال، ریڑھی بان تک غیر مندرج ہوں گے۔ ریاست کو پتہ ہی نہیں کہ کون، کہاں، کیا اور کتنا کما رہا ہے تو ٹیکس نیٹ کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ بغیر درست اعداد و شمار اور مکمل اندراجات کے ٹیکس لگانا اور وصول کرنا صرف خواب و خیال ہی ہو سکتا ہے۔ حقیقت نہیں بن سکتا۔

یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو

تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari