1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Hamza Yousaf Aur Pakistan Ka Siasi Nizam

Hamza Yousaf Aur Pakistan Ka Siasi Nizam

حمزہ یوسف اور پاکستان کا سیاسی نظام

حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان، پاکستانی نژاد وزیراعظم بن گئے۔ ان کا خاندان 1960 میں سکاٹ لینڈ نقل مکانی کر گیا تھا۔ ان کے والد وہاں بطور اکاؤنٹنٹ کام کرتے تھے۔ یعنی ایک متوسط مالی حیثیت کے حامل شخص تھے۔ حمزہ یوسف نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا اور سیاست کو ہی بطور کیرئر منتخب کرتے ہوئے سکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان پارلیمنٹیرین رشید احمد کے سیاسی نائب کے طور پر کام شروع کیا اس کے بعد مختلف سیاستدانوں کی نیابت کرتے ہوئے اور پھر سیاسی عہدوں سے ہوتے ہوئے آج اس اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔

حمزہ یوسف کی یہ جدوجہد اور اس جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی کامیابی پاکستانی عوام کے سامنے سوالات اٹھاتی ہے کہ کیا اگر حمزہ یوسف پاکستان کا شہری ہوتا تو وہ پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا تھا؟ کیا پاکستان میں کسی اکاؤنٹنٹ کا بیٹا تو دور کی بات کوئی عام ایم این اے بھی وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے؟ جواب ہے نہیں کیونکہ پاکستان کا سیاسی نظام جمہوریت کی بجائے ملوکیت پر مبنی ہے۔ اس فرسودہ سیاسی نظام کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں غلامانہ ذہنیت راسخ ہو چکی ہے۔

یہ قوم جس کو قوم کہتے ہوئے بھی دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے، خود کو غلام ابن غلام تصور کرتی ہے اور اپنے کسی نہ کسی ان داتا کو خدا کی طرف سے نامزد کیا ہوا آقا۔ یہ اپنی کم مائیگی کو خدا کی دین قرار دے کر مطمئن رہتی ہے۔ یہ خود کو غلامی اور جی حضوری کے لیے پیدا شدہ مخلوق سمجھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں لوگ اپنے ان داتا سے یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ تم ہی کیوں، تم میں اور تمہاری نسل میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ تم ہی ہماری تقدیروں کے فیصلے کرو گے، تم ہی ہمارے سر پر مسلط رہو گے۔

آخر کب تک ہم خدمتگار اور تم مخدوم رہو گے۔ کب عام عوام میں سے بھی کوئی قابل، ذہین اور محنتی شخص اس ملک کی باگ ڈور سنبھال سکے گا۔ کب ایک کسان، مزدور، معمولی ملازم کا بیٹا بھی اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اس ملک اس قوم کی ناخدائی کا خواب دیکھ سکے گا۔ کب بے شمار، بے ثمر آئینی ترمیموں کے ڈھکوسلوں کے بعد ایک ایسی ترمیم بھی آئین میں شامل ہوگی جس میں ایک شخص، ایک خاندان، ایک نسل کی اجارہ داری کے خاتمے کی نوید ہو۔

جس میں کسی سیاسی جماعت کو بھی جمہوری اقدار اپنانے پر مجبور کیا جائے گا۔ جس میں وڈیروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے ذاتی مفادات پر ٹکی سیاست کو لگام دی جائے گی۔ یہ سوال نہ ہونے کہ وجہ سے ہی چند سیاسی اجارہ داروں نے پاکستانی سیاست کو اپنا خاندانی اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔ ان کے بچے ہی ان کے بعد اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک مقرر ہوتے ہیں اور ان کے بعد ان کے پوتے اور نواسے یہ وراثت سنبھال لیتے ہیں۔

یورپ نے تو صدیوں پہلے ریاست پر نسلی اجارہ داری کا خاتمہ کر دیا تھا اور اسی کا ثمر ہے کہ آج انگلینڈ میں رشی سوناک، سکاٹ لینڈ میں حمزہ یوسف اور ماضی قریب میں امریکا میں باراک اوبامہ جیسے متوسط طبقے کے لوگ ملک کے سب سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ پائے۔

کیا حمزہ یوسف کی تقرری نے کسی پاکستانی کے ذہن میں یہ سوالات پیدا کیے، اگر اس کا جواب ہاں ہے تو انشاءاللہ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں بھی مستقبل میں سکاٹ لینڈ یا انگلینڈ کی طرح کسی مزدور یا ملازم کا بیٹا اپنی قابلیت اور جدوجہد کے بل پر سربراہ حکومت ہوگا۔ اور اگرسکاٹ لینڈ میں ہونے والی اس تقرری نے ایسے کسی جذبے یا خواہش کو نہیں ابھارا تو ہم جس تاریک رات میں سفر کر رہے ہیں یہ تاریکی ہمیں گمنامی کے گڑھے میں پھینک دے گی۔ اور پھر۔۔

ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

Check Also

Out Of The Box

By Javed Chaudhry