Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tanvir Sajeel
  4. Waldain Ko Professional Help Ki Kyun Zaroorat Hai

Waldain Ko Professional Help Ki Kyun Zaroorat Hai

والدین کو پروفیشنل ہیلپ کی کیوں ضرورت ہے

بچے کی شخصیت کی عمارت والدین کے ہنر پر کھڑی ہوتی ہے جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے پہلے استاد، گرو اور ساتھی والدین ہوتے ہیں اپنی پہلی قلکاری سے لیکر اپنے پہلے رونے پر بھی بچے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ اگر ہنستا ہے تو صرف اس وجہ سے کہ اس کے والدین کچھ ایسا کرکے دکھاتے ہیں جو بچے کے ناپختہ ذہن کے ان تاروں کو جھنجھوڑتا ہے جن کا تعلق بچے کے ذہن کے اس حصے سے ہوتا ہے جہاں نیورولوجیکلی اور کیمیکلی ایک ایسا کھیل پیش کیا جاتا ہے جس کا حاصل خوشی ہوتی ہے ایسے ہی جب بچہ روتا ہے تو اس کے ذہن کے ان حصوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے جن کا تعلق بچے کے رونے سے ہوتا ہے۔

اس پورے کھیل میں جو کہ ابھی بچے کی سیکھ کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جس سطح پر بچے کے پاس کوئی نئی سیکھ بھی پہلے سے موجود نہیں ہوتی تواس سطح پر کھیل کا تمام کنٹرول والدین کے پاس ہوتا ہے جہاں پر بچے صرف وصول کنندہ ہوتے ہیں اور صرف وہی کچھ وصول کرتے ہیں جو ان کو والدین کی طرف سے ملتا ہے اگر والدین کا پہلا رول ان کو خوشی دیتا ہے تو وہ اس ماڈل کو ذہن میں ترتیب دینا شروع کرتا ہے کہ یہی وہ افراد ہیں جو اس کے لیے خوشی لا سکتے ہیں اور جب بچہ کسی وجہ سے بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو تکلیف کے اس ماڈل کو بھی ویسے ہی اپنے ذہن میں نقش کر لیتا ہے۔

اب بچے کے پاس دو بھرپور قسم کے ماڈل ہوتے ہیں جو بچے کی ہر طرح سے ماڈلنگ کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں بچے کے یہ لررننگ ماڈلز بچے کی ہر قسم کی سیکھ اور جذباتی توازن کے مکمل ذمہ دار ہوتے ہیں ان ماڈلز کی ہر حرکت، بات، لفظ اور لہجے کوبچہ اپنے ذہن کےمطابق پراسسنگ کرنا شروع کرتا ہے جیسے جیسے بچے کا ذہن پختگی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے ویسے ویسے اس کے زندگی کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے اس کی سیکھ میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے وہ اپنے شعور میں معمولی باتوں کو کم اور غیر معمولی باتوں کو زیادہ جگہ دینا شروع کرتا ہے۔

اب اگر بچے کے یہ دونوں اولین ماڈلز اپنی شخصیت میں مکمل ہوں گے، جذباتی طور پر متوازن ہوں گے، تربیت کے ہنر سے واقف ہوں گے تو بچے کی شخصیت بنانے اور سنوارنے میں بہترین کردار نبھائیں گے مگر جب بچے کے یہی اولین ماڈل بچے کی نشوونما کےحوالے سے کم علم ہوں گے اور جذباتی طور پر غیرمتوازن ہوں گے تو ان کے بچے کی شخصیت سازی بھی مناسب نہیں ہو گی والدین کی اپنی شخصی خوبیاں یا خامیاں ہی بچے کی پہلی سیکھ میں غلط تجربے کا باعث بنتی ہیں۔

اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو ہمارے ہاں والدین بننے سے پہلے ایسی کون سی خاص تربیت کا اہتمام ہے جس کوحاصل کر کے ایک نیا جوڑا یہ سمجھ سکے کہ دوران حمل ہونے والے غیر معمولی واقعات بھی ماں کے ہارمونل لیول کو ایسی اونچ نیچ دکھا دیتا ہے جس کا براہ راست اثر بچے کی جسمانی و ذہنی نشوونما پر ہو سکتا ہے جس سے کی سیکھ کی صلاحیت اور شخصیت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

اب پریکٹیکلی دیکھیں اور محض مشاہدے کے لیے اپنے آس پاس کے بچوں کی تربیت پر ہونے والے تجربات پر غور کریں اور اس تربیت میں والدین کی اپنی شخصیت کی کجی، جذباتی نا ہمواری اور بچے کو سنبھالنے کے لیے ضروری علم سے لاعلمی کیسے بچے کی شخصیت کو متاثر کر رہی ہے۔

دوران مشاہدہ آپ کا ذہن آپ کو تربیت کے انداز میں موجود غلطیوں کی نشاندہی بھی کرے گا اور ان کا متبادل حل بھی بتائے گا کیونکہ اس وقت آپ کا ذہن تحقیق کار کی طرح سے کام کر رہا ہوگا وہ مسئلوں کے حل کے لئے مختلف حل بھی پیش کر رہا ہوگا۔

جیسا کہ پچھلی سطور میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بچے کی شخصیت والدین کی پختگی، جذباتی توازن اور نشوونما کے علم کی محتاج ہوتی ہے اب ہم اس فریب سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا لبادہ اوڑھ کر ہر تعلیم یافتہ سے لے کر غیر تعلیم یافتہ مرد و زن بہانہ تراشتا ہے اور ایسے ایسے نا معقول دلائل پیش کرتا ہے جن کا تعلق حقیقت کے ادراک سے نہیں ہوتا بلکہ اس حقیقت سے بھاگنے کا ہوتا ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے معقول ذہنی استداد اور ذمہ داری کو قبول کرنے کا حوصلہ ان کے پاس نہیں ہوتا۔

جب بھی کوئی نوبیاہتا جوڑا بچے کو پیدا کر لیتا ہے تو کیا اس کے پاس بچے کی پرورش کا تمام علم بھی اتر آتا ہے؟ کیا وہ اپنے شخصی اوصاف کو تبدیل کر لیتا ہے؟ کیا اپنے جذباتی رجحانات کے غلط تسلسل کو ترک کر لیتا ہے؟

یقینا ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور وہ جوڑا جوچھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے، جو اپنے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کو نپٹانے کی اہلیت نہیں رکھتا، جس کے پاس اپنا جذباتی کنٹرول نہیں ہوتا، جس کے رد عمل کے تمام بٹن صرف جذباتی ہوتے ہیں، جس کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے منفی سوچ کو کیسے ڈیل کرے اور جس کی شخصیت کے خاصے غیر اعتمادی سے لبریز ہوتے ہیں۔

اگر وہ بچے کی تربیت پر مامور ہوگا اور اس نے ہی بچے کی شخصیت کی بنیاد رکھنی ہے تو پھر ذرا عقل مندی سے سوچیں وہ اس کی شخصیت کی بنیاد کن لوازمات پر رکھے گا؟ کیا وہ خوف، وہم، تشویش اور ایسے ہی منفی جذبات کے گارے کی مٹی سے بنیاد نہیں رکھے گا؟

یہ بات ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ کسی بھی جوڑے نے شادی کرتے وقت شادی کے حوالے سے صرف ان ضرورتوں پر زیادہ توجہ دی ہوتی ہے جن کا تعلق ضروریات زندگی سے تو ہوتا ہے مگر ضروریات شخصیت کی تشکیل سے نہیں ہوتا ڈبل بیڈ کی چوڑائی سے لے کر ہنی مون تک کی پلاننگ پر اپنی توانائیاں توخرچ کر لی جاتی ہیں مگر جنسی لطف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس ذی ہوش کی شخصیت سنوارنے کے لیے ضروری لوازمات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور اس خام خیالی کو پلے باندھ کر ایک ایسے اہم کام کو کرنے لگ جاتے ہیں جو ان کی زندگی کو بعد میں مشکلات سے بھرپور کر دیتا ہے۔

آپ والدین ضرور بنیں مگر دیانت داری سے اپنا محاسبہ بھی کریں کہ آپ کے پاس وہ شخصی اہلیت، مناسب تربیتی اصول اور علم ہے جو بچے کی شخصیت سنوارنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور اگر نہیں ہیں تو آپ ان کو سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے آپ کی کوشش بچے کو ہی سکھائے جانے پر کیوں مرکوز ہے۔

اگر آپ کو اپنے بچے کا پہلا استاد، کوچ اور گرو بننا ہے تو کسی استاد گرواور کوچ سے تربیت لینا بھی بچے کی دیانتداری سے تربیت کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf