Psychological First Aid
سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ
ایک دس سال کا بچہ بھی جانتا ہے کہ اگر اس کے ہاتھ پر چوٹ لگنے سے زخم لگ گیا ہے تو اسے اس زخم کو جراثیموں سے محفوظ رکھنے اور اس کے مندمل ہونے کے لیے کیا کرنا ہے اپنے والدین کو بتانا ہے، ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے یا گھر میں ہی مرہم پٹی کرنی ہے۔
جسمانی صحت میں ہونے والی معمولی سے غیر معمولی بے اعتدالی، خرابی کے بارے میں تقریبا ہر شخص کو ہی علم ہے کہ اس کو کس طرح سے اپنے جسمانی امراض و مسائل کو حل کرنا ہے اور کون سے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے اور کس ہسپتال کا رخ کرنا ہے۔
مگر جب بات نفسیاتی و جذباتی مسائل اور دشواریوں کی آتی ہے تو ایک بیس سال کے شخص کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کو ان مسائل کو کس ڈاکٹر کے پاس لے کے جانا ہے اور اس کے علاج کے لیے اس کو کیا کرنا ہے۔
حفظان صحت کا پہلا بنیادی مرحلہ ہمیشہ سے فرسٹ ایڈ رہا ہے جس میں ہلکے پھلکے امراض جیسا کہ سر درد، بخار، زکام اور معمولی خراش و زخم کے علاج کے لیے ہر شخص تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کسی بھی ایسے مرض کی ابتدائی طبی امداد گھر پر ہی دی جا سکتی ہے ا س کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ حفظان صحت سے مراد صرف جسمانی صحت ہی مقصود ہے یا صحت کے باقی پہلوؤں جیسا کہ نفسیاتی، جذباتی صحت کو بھی حفظان صحت کے تصور میں شمار کیا جانا چاہیے۔
تو اس سوال کا جواب صحت کے عالمی اداروں سے لیکر علاقائی ادارے اور معالجین یہی بتاتے ہیں کہ حفظان صحت سے مراد صرف جسمانی صحت ہی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہماری صحت کے نفسیاتی و جذباتی پہلو بھی اس کا اہم اور ضروری حصہ ہیں۔ کیونکہ اگر جسم ایک ہارڑ وئیر کے طور پر کام کر رہا ہے تو اس کے افعال کو چلانے کے لیے کسی سوفٹ وئیر کی بھی ضرورت ہو گی اور نفسیات و جذبات ہی انسانی جسم کے سوفٹ وئیر ہیں جن کی بے اعتدالی، غیر فعالیت اور ان میں غیر ضروری تناؤ ہمارے جسمانی افعال اور ان سے وابسطہ اندرونی کیمکل نظاموں کو بگاڑ دیتا ہے اور نتیجے کے طور پر ہم کو سٹریس، ڈپریشن، پریشانی اور گھبراہٹ جیسے مسائل سے دہ چار کرتا ہے۔
جب حفظان صحت کا مطلب واضح طور پر عیاں ہے کہ جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی صحت ہی دراصل مکمل صحت مندی کا ثبوت ہے تو ہمارا سارا علم و توجہ ہمیشہ جسمانی صحت کی طرٖف ہی کیوں ہے ہم نفسیاتی و جذباتی صحت کو پس انداز کیوں کر دیتے ہیں جس کا واضح مطلب تو یہی ہوا کہ نفسیاتی و جذباتی صحت ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں اور اگر حصہ ہیں بھی تو ان کے حوالے سے ہماری کم علمی ہماری سوچ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
جیسے کسی بھی ہلکی پھلکی مرض اور زخم کے لیے میڈیکل فرسٹ ایڈ لینی ضروری ہے ویسے ہی ان زخموں، چوٹوں کے لیے بھی سائیکا لو جیکل فرسٹ ایڈ کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو بظاہر کسی کو دکھائی نہیں دے رہے ہوتے اور اگر دکھائی نہیں دے رہے ہوتے ہیں تو ان کو نظر انداز کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
خدانخواستہ جب کوئی فرد کسی ناگہانی حادثے، مثلا ایکسڈنٹ، ریپ، قدرتی آفات یا کسی قسم کے ایسے معاملات کا سامنا کرے جس سے اس کے ذہن پر برے اثرات پڑیں جو اس کے نارمل کام کاج کی صلاحیت کم یا ختم کر دے تو ایسے میں اس فرد کو فوری طبی امداد کے ساتھ ساتھ سائیکا لو جیکل فرسٹ ایڈ کی بھی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔
سائیکا لو جیکل فرسٹ ایڈ فراہم کرے کے لیے کسی پروفیشنل کی فوری ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ یہ فرسٹ ایڈ کوئی بھی قریبی شخص، فیملی ممبر، دوست احباب اور اس وقت موجود کوئی بھی ساتھی شخص دے سکتا ہے اور اگر سائیکا لو جیکل فرسٹ ایڈ کے بعد بھی متاثرہ شخص کی نفسیاتی و جذباتی بحالی نہ ہو رہی ہو تو پھر پروفیشنل سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
آج کل مجموعی طور پر لوگوں کی جذباتی حالت بہت سے اندرونی و بیرونی وجوہات کی وجہ سے پہلے ہی ایک ایسے غیر میعاری مقام پر ہے کہ کوئی بھی معمولی سا معمولی حادثہ، واقعہ یا صرف بات ہی ان کی جذباتی صحت میں اتنا اتار چڑھاؤ لے آتی ہے کہ ان کا خود پر اختیار نہیں رہ پاتا اور اپنی جذباتی شدت انگیزی کے ہاتھوں یرغمال ہو کر اپنا یا دوسروں کا انتہائی نقصان کر لیتے ہیں جو کہ خود اذیتی، زخم دینے سے لیکر اپنی یا دوسروں کی جان لینے تک بھی ہو سکتا ہے۔
روز مرہ کے گھریلو تنازعات، کپلز کے درمیان بڑھتے جذباتی فاصلے، سسرال والوں سے ان بن، تعلقاتی بریک اپ، معاشی دباؤ اور والدین کے نا مناسب رویوں سے پوٹھتے طوفان بھی ایسے بھونچال لے آتے ہیں جو انسانی زندگی کے ضیاع، خوابوں و خواہشوں سے دستبرداری اور زندہ لاش بننے جیسے حالات پیدا کر دیتے ہیں۔
مگر افسوس کہ جب ایسے کوئی حالا ت پیدا ہوتے ہیں کہ کوئی شخص نفسیاتی و جذباتی طور پر گھائل ہو گیا ہے یا کوئی ذہنی تناؤ کا شکار ہے تو اس کو فوری پر سائیکو لو جیکل فرسٹ ایڈ نہیں ملتی کیوں کہ اکثریت کو یہ علم ہی نہیں کہ سائیکو لو جیکل فرسٹ ایڈ کیا ہوتی ہے اور اس کو فراہم کرنے کے کیا مراحل ہیں۔
سائیکو لوجیکل فرسٹ ایڈ دینے کے لیے کسی قسم کی سند کی ضرورت نہیں ہے اس کے لیے صرف جذبے، ہمت اور ہمدردی کی ضرورت ہے جو کسی بھی آفت، مصیبت سے متاثر شخص کو فراہم کرانے کا نام ہے سائیکولوجیکل فرسٹ ایڈ میں متاثر شخص کی مدد ایسے کی جاتی ہے کہ متاثر شخص اس حادثے کی شدت میں کمی محسوس کرے اس کو ایسا انسانی کنکشن فراہم کیا جاتا ہے جس سے وہ محسوس کرے کہ اس کے پاس ایسی شخصی سپورٹ موجود ہے جو اس کے جذباتی پن کو اپنی سپورٹ سے کم کر دے گا اوان کمزور لمحوں میں اس کے پاس ایک ایسا سہارا موجود ہے جو اس کی مادی، نفسیاتی، جذباتی ضروریات کو پورا کر کے اس کو حادثے کے برے اثرات سے باہر نکال دے گا۔