Psycho Education
سائیکو ایجوکیشن
اکثر لوگ سوشل میڈیا پر یہ سوال پوچھتے کہ ان کے لائف پارٹنر یا گھر کے کسی دوسرے فرد کو کچھ نفسیاتی مسائل ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر کا تمام ماحول خراب ہو رہا ہے اور گھر کے باقی لوگوں کی زندگی بھی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ مذکورہ شخص کسی طور پر بھی علاج معالجے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہا ہے، تو ایسے میں اس شخص کو کیسے علاج کے لیے آمادہ کریں؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی آگاہی بہت ضروری ہے، کہ صرف مریض یا نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد ہی کو ماہر نفسیات سے مشاورت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ گھر کے دوسرے افراد خاص طور پر لائف پارٹنر کو بھی ماہر نفسیات سے اس فرد کی نفسیاتی الجھن کے حوالے سے معلومات لینا بہت ضروری ہوتا ہے، تاکہ مذکورہ فرد کا علاج بہترین خطوط پر ہو سکے۔
کیونکہ نفسیاتی امراض کا علاج صرف دوائی سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں اہلخانہ کی سوشل اور ایموشنل سپورٹ کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اہلخانہ ہی مریض کی نفسیاتی، جذباتی اور سماجی ضرورت کو نہیں سمجھیں گے اور اس کے مرض کی علامات کو غیر حقیقی یا ڈرامہ بازی سمجھ کر اس کے ساتھ برا اور نامناسب برتاؤ کریں گے تو یہ عمل علاج کے عمل میں غیر معمولی رکاوٹ پیدا کرے گا اور مریض کو مزید تکلیف میں مبتلا کر دے گا۔
یہی وجہ ہے کہ نفسیات کا طریقہ علاج دوسرے میڈیکل کے طریقہ علاج سے انتہائی مختلف ہے۔ جس کو سمجھنا اس لیے بھی اہم ہے، کہ ہم بچپن سے صرف میڈیکل کے طریقہ علاج سے واقف ہوتے ہیں، اور ہم نے یہ نظریہ اور سوچ بنا رکھی ہوتی ہے کہ بیمار شخص جانے اور اس کا ڈاکٹر جانے، مگر نفسیاتی مسائل کے علاج کے حوالے سے ایسے نظریات علاج میں غیر موزوں اور غیر مناسب ہوتے ہیں۔ جو علاج میں ایک ایسا پلیٹ فارم بن جاتے ہیں، جس پر علاج کی گاڑی سست روی سے چلتی ہے۔
دوسرا ماہر نفسیات کا بنیادی کام سائیکو ایجوکیشن کا ہوتا ہے۔ جس میں وہ نفسیاتی مسائل میں مبتلا فرد کو اور اس کے اہل خانہ کو اس نفسیاتی مرض کے بارے اہم آگاہی دیتا ہے، کہ اس مرض کی علامات کون سی ہوتی ہیں، ان کو کیسے ڈیل کرنا ہے، یہ مرض کن وجوہات کی وجہ سے آئی ہیں، اور ان وجوہات کو کیسے کم یا ختم کیا جا سکتا ہے، مرض کی شدت میں مریض کو کیسے سنبھالنا ہے، اور ایسے کون سے سوشل اور ایموشنل اقدمات کرنے ضروری ہیں جن سے مریض کی بہتری میں واضح فرق پڑ سکتا ہے۔
اگر سائیکوایجوکیشن کا عمل شامل علاج نہ ہو تو بیشمار غیر ضروری وجوہات علاج کے عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اہلخانہ کی گائیڈنس، مشاورت کا یہ عمل ان کو رہنمائی مہیا کرنے کے لیے ہوتا ہے، کہ اگر مریض کسی وجہ سے علاج کے لیے آمادہ نہ ہو تو اس صورتحال کو کیسے نپٹانا ہے، تاکہ علاج کا عمل متواتر جاری رہے اور کسی صورت میں بھی اس میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو کیونکہ اکثر نفسیاتی مسائل میں مریض ایسے غیر یقینی خیالات کو اپنانے لگتا ہے۔
جو اس کو علاج کی طوالت سے اکتاہٹ اور بیزاری کی طرف دھکیل دیتے ہیں، تو اس وقت اہلخانہ کی سائیکو ایجوکیشن ان کی رہنمائی کرتی ہے، اور مریض کے علاج میں بہتری کے اقدمات لاتی ہے۔ اب اصل سوال کے جواب میں عرض ہے، کہ ایسے افراد جو معمولی یا غیر معمولی نفسیاتی الجھن، مسائل یا مرض کا شکار ہوں اور ان کو علاج کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کون سا طریقہ استعمال کیا جائے؟
تو اہل خانہ اول تو ایسے افراد کی مدد لیں جو مذکورہ شخص پر اثر انداز ہو سکے جیسا کہ ایسا کوئی فیملی ممبر یا دوست اور عزیز و اقارب جس کی بات کو مذکورہ شخص مان سکتا ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے، کہ اہلخانہ مریض کو اتنا اعتماد اور بھروسہ دلائیں کہ وہ اس کے علاج کے عمل میں ہر طرح سے تعاون کریں گے۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اہل خانہ خود کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں تاکہ ان کو سائیکو ایجوکیشن دی جا سکے اور ماہر نفسیات تمام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے مشورے دے سکے جو مریض کو علاج کی طرف لانے میں مدد کر سکیں یا پھر وہ مریض کو خود سے ڈیل کرنے کی کوشش کر سکیں، اور سوشل میڈیا پر موجود ایسے لوگوں کی رائے سے محفوظ رہ سکیں جو سائیکالوجی ایکسپرٹ نہ ہوں تاکہ ان کے غیر معیاری مشورے ان کے لیے مزید مشکلات کا سبب نہ بنیں۔