Medical Doctors Aur Psychological Issues
میڈیکل ڈاکٹری اور سائیکالوجیکل ایشوز
ذہنی صحت کی کیئر کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس کا اندازہ آپ اپنے قریبی میڈیکل ڈاکٹر کے پاس صرف ایک گھنٹہ بیٹھ کر، اس کے پاس آئے ہوئے مریضوں کی میڈیکل ہسٹری سن کر لگا سکتے ہیں۔ آپ کو ہر دوسرا مریض نیند کی خرابی، پٹھوں میں کھنچاؤ، بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن، گھبراہٹ اور معدہ کی خرابی جیسے امراض کے ساتھ ملے گا اور ایسے مریضوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔
جن کو دل کے عارضے، شوگر، فالج اور انفیکشن کی ابتدائی علامات کی شکایات ہوں گی، مگر سب سے حیران کن بات یہ ملے گی کہ ان سب مریضوں کی عمریں پچیس سے چالیس کے درمیان کی ہوں گی، جو کہ عمر کا ایسا حصہ ہے۔ جس میں انسانی قوت مدافعت اپنے جوبن پر ہوتی ہے اور کسی بھی قسم کے معمولی بیماری کے رجحان کو خود بخود ہی نپٹ لیتی ہے۔ کجا ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی سیڑھیوں پر سانس پھلاتے پھریں۔
چونکہ ہم نے بچپن سے ہی یہ دیکھا اور سیکھا ہوتا ہے کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں صرف اسی ڈاکٹر سے علاج کروانا ہے۔ جو گلے میں دھڑکن چیک کرنے والا آلہ لٹکائے ہو اور ادویات کے ساتھ انجکشن و ڈرپ کا جگاڑ کرتا ہو، اس لیے ہم جب بھی بیمار پڑتے ہیں تو فوری ایسے ڈاکٹر کے کلینک و ہسپتال کی طرف دوڑتے ہیں۔ جو ہم کو چیک کرنے کے بعد ادویات تجویز کرتا ہے۔
ایسے تمام مریضوں کے لیے تجویز کی جانے والی ادویات پر ایک نظر کریں تو اس میں نیند کی بہتری کی دوائی، مسلز کو ریلکس رکھنے کی دوائی کے ساتھ ساتھ کوئی نا کوئی ایسی ادویات بھی ہوتی ہیں۔ جو ڈپریشن (افسر دگی)، پینک اٹیک (گھبراہٹ) اینگزائٹی (پریشانی) کو کم کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ جب کوئی بھی میڈیکل ڈاکٹر ایسی ادویات کو تجویز کرتا ہے۔
جن کا تعلق میڈیکل امراض سے کم اور سائیکالوجیکل مرض کو کم کرنے سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میڈیکل مرض کی وجہ سے سائیکالوجیکل ایشوز ہوئے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سائیکالوجیکل ایشوز جن پر توجہ نہیں دی گئی تھی اور ان کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اب ایسی شکل اختیار کر گئے ہیں اور انہوں نے جسم کے دوسرے تمام افعال کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے۔
کہ وہ افعال اب میڈیکل کا مرض بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ چونکہ مریض کو ادویات کے بارے اتنا علم نہیں ہوتا کہ کون سی دوا کس مرض کے لیے ہے، وہ تو بس اس بات میں خوش ہو جاتا ہے کہ اس کو ایک بڑے ڈاکٹر نے چیک کیا ہے اور اس کی یہ خوش فہمی ہی اس کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر سے یہ سوال پوچھنا کہ مرض کی کیا تشخیص ہے اور اس کے مطابق کیا ادویات دی گئی ہیں۔
ہمارے ہاں کے ڈاکٹری آداب کے نا صرف خلاف سمجھا جاتا ہے، بلکہ ایک گستاخانہ حرکت قرار دی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر میڈیکل پروفیشنل اپنے مریض کو یہ بات بالکل واضح نہیں کرتے کہ ان کا مسئلہ ان کی سٹریس لینے اور ذہنی صحت کی کیئر نہ کرنے والی عادات کی وجہ سے ہوا ہے۔ دوسری جانب آجکل تعلیم یافتہ لوگ بھی اس بات کی اہمیت سے انکاری ہیں۔
کہ ان کے بیشتر میڈیکل ایشوز کی وجہ ان کی ذہنی صحت کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ہیں، ذہنی صحت کے حوالے سے ڈاکٹرز کی طرف سے مناسب اور درست تشخیص نہ ہونے کے سبب اور مریض کی طرف سے ذہنی صحت کے بارے لاعلمی، کم توجہی، بے اعتنائی اور اہمیت نہ دینے کی غلطی مریض کو ایسی بیماری کی طرف لے جاتی ہے جس کا علاج عام ڈاکٹرز کے بس کی بات نہیں رہتا اور علاج کے لیے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
اگر بروقت مناسب تشخیص اور ذہنی صحت کی کیئر کے لیے کونسلنگ کے لیے ماہرین نفسیات کی طرف ریفر کیا جائے تو بہت سے مسائل ادویات کے بغیر ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے بگاڑ کے حوالے سے لوگ ایسا غیر حقیقی نظریہ اور سوچ رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک ذہنی صحت کی خرابی صرف کسی ایسی بڑی وجہ سے ہو سکتی ہے جو کہ انسانی ذہن کو تباہ کر کے رکھ دے۔
جبکہ حقیقت سے یہ لاعلمی ان کو اس بارے سوچنے سے روکتی ہے کہ ذہنی صحت کی خرابی تو روز مرہ کے رویوں، جذباتی اشتعال انگیزی، ہیجانی عدم توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کو بہتر سمجھنے کے لیے سٹریس جیسی جادوئی مرض کو سمجھنا ضروری ہے۔ سٹریس جو کہ ایک فیشن زدہ لفظ بن چکا ہے اور بچوں سے لیکر بڑوں کی زبان پر یہ عام بول چال کے لفظ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
سٹریس کی حقیقت کیا ہے اور اس کے جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی اثرات کیا ہیں۔ ان کو سمجھنے سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ یہ وہ زہر ہے۔ جو ہم لمحہ با لمحہ گھونٹ گھونٹ پی کر اپنی قوت مدافعت کا تمام نظام بیشتر بیماریوں کے ہاتھ میں گروی رکھ دیتے ہیں۔ کیونکہ سٹریس ہمارے جسمانی افعال کو اس بری طرح سے متاثر کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص اس کو صحت مندی کی حالت میں زیادہ دیر تک جھیل نہیں سکتا۔
اور ہم کو ایسی صورتحال کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ جہاں پر کبھی بلڈ پریشر کا نظام خراب ہو رہا ہوتا ہے، تو کبھی سانس لینے میں دشواری، تو کبھی شگر لیول اودھم مچا دیتا ہے، تو کبھی پٹھوں کو درست انداز سے کام کرنے سے روک دیتا ہے، پھر یہ سب مل کر نیند اور بھوک پر حملہ کرتے ہیں۔ جو جسمانی افعال کے درمیان ایک نئی جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور بندہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سٹریس اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ایسی ہی غیر منطقی سوچ پھر ہمارا اس بات پر یقین پختہ کر دیتی کہ بیماری صرف جراثیموں سے پھیلتی ہے۔ آج کے دور میں سٹریس کسی بڑی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت معمولی باتوں پر بھی وارد ہو رہا جس کو سمجھنا اور اسٹریس مینجمنٹ کو سیکھنا نہ صرف میڈیکل امراض سے بچاتا ہے۔ بلکہ ایک کوالٹی لائف کی راہ ہموار بھی کرتا ہے۔ جو زندگی کی خوشی اور دوبالا پن کو دعوت دیتا ہے۔