Mareezana Taluqat Se Nipatne Ki Raah
مریضانہ تعلقات سے نپٹنے کی راہ
پیار محبت عشق جنون کی خواہش آج کل ایک الگ ہی لیول کی ضرورت بن چکے ہیں ہر دوسرا فرد خود کو ایک ریلیشن شپ میں رکھنا چاہتا ہے یا ریلیشن شپ میں ہے مگر یہ جانے بغیر کہ ریلیشن شپ کی اصل کیا ہے اور کیا ان کا ریلیشن شپ کا جونظریہ ہے وہی نظریہ دوسرے پارٹنر کا بھی ہے یا پھر وہ اپنا نظریہ دوسرے پارٹنر پر مسلط کرناچاہتا ہے تاکہ وہ ریلیشن شپ کو اپنے قاعدے کے مطابق چلانے کی خواہش کا بندوبست کر سکے۔
ایسی خواہش دراصل ایک نفسیاتی پیچدگی کا مظہر ہوتی ہے جس کا تعلق ریلیشن شپ کی خوبصورتی اور مضبوطی سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انا کی تسکین کا ایک بھونڈا جواز ہوتا ہے یہ بات ایک ایسی حقیقت ہے جس کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے علم کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جب تک کسی فرد کے رویہ جات کے پس منظر میں موجود ان محرکات کو نہ سمجھ لیا جائے جن کی تہ میں ایسے عزائم چھپے ہوتے ہیں جو فرد کے ان شخصی خواص سے جا ملتے ہیں جن کے بارے اکثر وہ فرد خود بھی لاعلم ہوتا ہے مگر ان رویوں کے نیزوں کو دوسرا پارٹنر آسانی سے محسوس کر لیتا ہے اور جب زخم خوردہ ہو کر دوسرا پارٹنر اس تکلیف اور درد کا اظہار اپنے پارٹنر سے کرتا ہے تو پہلا پارٹنر اس کو مکمل انکار کے ساتھ ایسی تاویلات دیتا ہے جن کا عقل و لاجک سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا اور وہ زبردستی اپنے زبانی حملوں سے معتوب پارٹنر کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا جگاڑ لگاتا ہے۔
ریلیشن شپ کے ایسے نظریات جن کی اختراع ذاتی سوچ سے ہوتی ہے اکثر غیر صحت مند اور غیر حقیقی ہوتے ہیں جن کی عملی حیثیت ایک ایسے دردناک قید بامشقت کی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے پارٹنر کو قید کر کے اس کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا چاہتا ہے کہ جیسے اس کو ڈر ہو کہ اگر اتنا کنٹرول نہ رکھا تو ان کا پارٹنر مطلب ان کا شکار ان کے دائرہ رعب و اختیار سے آزاد ہو جائے گا اور وہ اس کے سامنے بے بس ہو کر خود کو خوش نہیں دیکھ پائیں گے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ریلیشن شپ دو لوگوں کا متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایسی ڈور میں بندھنا چاہتے ہیں جس ڈور کے دونوں سروں پر دو ایسی شخصیات کھڑی ہیں جو مجموعی طور پر ایسے ذاتی خواص اور ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور ماحول کا فرق ان کو اتنا ممتاز کرتا ہے کہ چند دن کے ریلیشن شپ کے بعد ان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کا انتخاب دراصل درست نہ تھا اور ایسا اکثر ہوتا بھی ہے کیونکہ ریلیشن شپ کا اوائل وقت صرف جذبات کے آسمان پر گزرتا ہے جہاں پر نیوروکیمیکل سسٹم ایسی ہوائیں چلاتا ہے جس میں ہر فرد ایک کٹی پتنگ کی طرح بس کھلے آسمان میں اڑنا چاہتا ہے اور ہواؤں کے تھمنے کی صورت میں ہونے والے انجام سے جان بوجھ کر بے خبر رہنا پسند کرتا ہے اور یہی نفسیاتی اور جذباتی کھیل پیار و محبت کے آغاز کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
اور جب محبت کا یہ سودا سر پر سوار ہو کر عادت بننا شروع ہوتا ہے تب آنکھیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں کہ ایک ایسے ریلیشن شپ میں آگئے جس کی کوئی چاہ نہیں تھی اور پارٹنر ایسے سوچ اور رویے کا مریض ہے جس کی وجہ سے خود مختلف جذباتی اور نفسیاتی مسائل کے مریض بن رہے ہیں۔
مگر تب بھی ان ریلیشن شپ میں آپشن ہوتی ہے کہ ایسے مریضانہ تعلق کو طلاق دے دی جا ئے جن تعلقات کو ابھی تک کوئی سماجی رتبہ نکاح کی صورت میں نہ دیا گیا ہو ہاں البتہ جب ایسی صورت ہو کہ بعد از نکاح معلوم پڑے کہ آپ کا نکاح کسی شخص سے نہیں بلکہ ایک نرگسیت پسند مریض کے ساتھ ہوا ہے تو پھر بھی کچھ آپشن ہوتے ہیں کہ حالات کو سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے کہ نباہ کرنے کی کیا صورت ہوگی اور اس نباہ کو نبھانے کے لیے کس طرح کی ذہنی اور جذباتی اپروچ کی ضرورت ہوگی اور یہ سب سمجھنے اور جاننے کے لیے بلا شبہ پروفیشنل گائیڈنس اور کپل کونسلنگ کی ضرورت پڑے گی جس میں ماہر نفسیات حالات کا جائزہ لے کر رہنمائی فراہم کر سکتا ہے کہ خود کو، ریلیشن کو اور باقی زندگی کے معاملات کو کس طرح سے بہتر انداز میں ڈیل کیا جائے تاکہ کم از کم نفسیاتی، جذباتی نقصان ہو۔
اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں رسم ورواج کی سولی اور کلچرل دھونس اتنی زیادہ ہے کہ اکثر خواتین وحضرات کے پاس اتنے آپشن ہی نہیں ہوتے کہ وہ شادی کے بعد کسی صورت میں بھی ایک ایسا انتہائی فیصلہ لے سکیں جو ان کو ایک آسان زندگی جینے میں مددگار ہو۔
ہر چند کہ پھر بھی بہت سے لوگ طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں اور اکثر ان کا یہ قدم ایک ایسی جذباتی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے جس میں بہت سے زندگی میں آنیوالے ممکنہ مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے مگر یہ نظر اندازی ان ممکنہ مسائل کو نہ تو روک پاتی ہے اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی حل ڈھونڈ کے لاتی ہے۔
مگر سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ اگر خاندانی دباؤ یا کسی اور وجہ سے آپ ایسے پارٹنر کے ساتھ زندگی گزارانے پر مجبور ہو ہی گئے ہیں تو اس سے فرار حاصل کرنے سے پہلے آپ کو جو بھی فیصلہ لینا ہے اس کے لیے آپ کو ایسی ذہنی اور جذباتی حالت کی ضرورت ہے جس میں فیصلہ لیتے ہوئے آپ عقل و ہوش مندی کا دامن نہ ہاتھ سے چھوڑ سکیں اور ممکنہ فیصلہ آپ کی آنے والی زندگی کو آسان بنائے۔
ایسے بد نصیب جو طلاق جیسے انتہائی قدم کا سوچ بھی نہیں سکتے اور سسکتی زندگی کی چکی میں پستے رہنا ہی ان کا مقدر بن گیا ہو تو ان لوگوں کے پاس بھی ایسے آپشن باقی ہوتے ہیں جو ان کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کو بہتر رکھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ ان دونوں پارٹنرز کے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کی نفسیات پر جو براثر پڑنے کے قویٰ امکان ہیں ان کو رفع کیا جا سکے۔
آج کے دور کو بلا شبہ علمی ترقی کا دور یا انفارمیشن کا دور کہا جاتا ہے جدت نے ہر قسم کی معلومات کو ہر بندے کی پہنچ میں پہنچا کر ان پر یہ احسان تو کر دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ایسے پروفیشنلز کی رہنمائی حاصل کر سکیں جو ان کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے میں مدد فرہم کر سکیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی باتوں پر اول تو دھیان بہت کم دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسے پروفیشنلز کے پاس جائے بھی تو ان کو اپنی خواہش کے مطابق ان کے مسائل کا حل چاہیے ہوتا ہے جو کہ سراسر عقل کے منافی بات ہوتی ہے شادی شدہ زندگی کے مسائل بھی ایسے مسائل ہیں جن میں پروفیشنل گائیڈنس کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دونوں کپلز ریلیشن شپ کی نفسیات، حرکیات اور جذبات کا کھیل سمجھ سکیں اور کسی بھی ایسی نا گہانی صورت کو سنبھالنے کے لیے خود کی تربیت کر سکیں جو ان کو طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھانے یا نہ اٹھانے کی صورت میں ایک ماہرانہ رہنمائی فراہم کر سکے۔