Khud Farebi Ke Fareb
خود فریبی کے فریب
خود ساختہ بے بسی کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ ہر دوسرا فرد ذہنی و جذباتی طور پر اتنا مفلوج ہو چکا ہے کہ وہ اس بات پر پختہ ایمان لا یا ہوا ہے کہ اس کی زندگی فلاپ ہو چکی ہے اور دنیا کا کوئی بھی پروفیشنل، کوچ اس کی لائف کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔
خود فریبی کے اس جہنم میں جھلسنے والے شائد بھول رہے ہوتے ہیں کہ ان کی یہ لاچارگی ان کی اپنی سوچ کی پیدا کردہ ہے جس سوچ کی تحقیقی، عقلی اور عملی بنیاد اتنی کمزور ہے کہ وہ کسی بھی ناول، ڈرامے اور فلم کی ایک چھوٹی سی تحریر اور جملے میں اپنی لائف کی بے بسی کو قید کر کے دنیا کے سپیشلائزڈ علم کو بھی یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ انکی سوچ کی وسعت کے آگے کمتر ہے۔
وہم کا یہ بخار صرف وقتی ہوتا ہے جس کی اذیت کی لذت میں ڈوب کر اکثریت یہ سمجھ رہی ہوتی ہے کہ ایک بریک اپ، ایک ناکامی، ایک ایشو، ایک ناکام کوشش اب ان کو مزید زندگی کی رنگینی جینے کے حق سے محروم کر چکی ہے اور اب باقی زندگی بس ایک ایسی بے رنگی اور اذیت میں جینے کا حکم مل گیا ہے جس کو بدلنے کا سوچنا بھی گناہ عظیم ہے۔
ایسا حماقت زدہ نظریہ اپنا نے کے پس منظر میں بھی ایسے سائیکالوجیکل محرکات ہیں جن کو سمجھنے کے لیے علم نفسیات کی تھوریز اور ماہر نفسیات کی رہنمائی کی اشد ضروت ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے علم، تجربے اور سائیکالوجیکل ٹولز سے ان محرکات کی جانچ پڑتال لگاتا ہے، شخصیت کے خواص، سوچ کے انداز، سوچ کی اغلاط اور جذباتی پن کی اسیسمنٹ کر کے موجودہ صورتحال کی آگاہی حاصل کرنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ حل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
مگر ہم تو ٹھہرے اپنی ہی ذات کے ارسطو جن کی کم علمی ان کو یقین دلا چکی ہوتی ہے کہ ان کی سوچ دنیا کی آخری حقیقت ہے اس لیے کونسلنگ، کوچنگ اور گائیڈنس محض باتیں اور وقت کا زیاں ہے۔
چونکہ ان کا کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے پاس اتنا علم ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے پروفیشن کی ماہیت، ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں جو انسانی سوچ رویے اور عمل کی جانچ پڑتال کرکے ان میں موجود خرابیوں اور ان خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوں اور ایسے لائحہ عمل، مینجمنٹ پلان افراد کو مہیا کرتےہوں جن کو اپنا کر اور عمل کرکے وہ اپنی اس موجودہ خستہ حالی سے نکل کر ایک بہتر زندگی کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔
ہماری تعمیر شخصیت کے بہت سے ایسے عوامل ہیں جو کبھی انسان کو ایک بہتر سوچ کی طرف نہیں لے کے آتے جیسا کہ ایک فرد سولہ سال اپنی تعلیم مکمل کرنے پر لگاتا ہے وہ مختلف سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے اور بہت سارےاساتذہ سے زیرتعلیم رہتے ہوئے صرف یہ سیکھ پاتا ہے اس کی تعلیم کا مقصد صرف ایک ڈگری کا حصول ہے جس کے حاصل ہونے پر وہ کوئی اچھی جاب کر سکے مگر ایجوکیشن کا یہ ماڈل اتنا خطرناک ہےکہ کوئی ڈگری ہولڈر کبھی اس بات کو ترجیح نہیں دیتا کہ اس کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس کی ایجوکیشن کا ایک سب سے مثبت مقصد اس کی شخصیت کی تعمی کرنا اور اپنی ذات میں ایسی تبدیلیاں لانا ہے جو اس کو بہتر سے بہترین کر دے۔
ہر ڈگری یافتہ کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اس کی تعلیم میں جتنا بھی اضافہ ہوا ہے وہ اس کی تعلیمی قابلیت اور آئندہ آنے والی زندگی کے لئے نا کافی ہے اور وہ یہ جان پائے کہ اس کی یہ ناکافی صورتحال اس کی زندگی کا مسلسل احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کو مسلسل ایک رہنمائی اور کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
چونکہ ہمارے ایجوکیشنل ماڈل میں یہ بات تو کہیں بھی سلیبس کا حصہ نہیں ہوتی کے کورس ورک کے ساتھ ساتھ بچے کی پرسنلٹی گرومنگ اس کی سوچ کی وسعت اور اس میں موجود رجحانات کے مطابق اس کی گائیڈینس کی جائے مگر ایسا ہوتا نہیں جس کے باعث وہ اپنی ڈگری کے مکمل ہونے کے بعد بھی اس قابل نہیں ہو پاتا کہ اپنی زندگی کے مسائل کو سمجھ سکے اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب رہنمائی کو چن سکے۔
ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے ساتھ ساتھ پرسنل ڈویلپمنٹ کے عنصر کا نہ ہونا ڈگری ہولڈر کی زندگی میں ایک ایسا لامتناہی خلا چھوڑ دیتا ہے جس کو وہ اپنی ہی غلط سوچ، کم علمی، غیر واضح ادراک کی سطح اور تجربے کی کمی سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں وہ کسی بھی بیرونی علمی مدد جو گائیڈنس، کوچنگ اور مطالعہ کی صورت میں ملے اس کو یکسر رد کرتا ہے اور اپنی ہی خام خیالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اتنا مشکل بنا لیتا ہے جو صرف اس کی اپنی مشکل نہیں ہوتی بلکہ پورے خاندان کی مشکل بن جاتی ہے۔
علم و ہنر کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم ذہنی بالیدگی کی اس سطح کو پہنچ پائیں جس سطح سے ہماری سوچ کو اتنا وسیع ہوجانا چاہیے کے ہم ہر معاملے میں اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنے کی غلطی سے باز رہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں کہ اس زندگی کے بیشتر مسائل ایسے بھی ہیں جو ہماری ذاتی قابلیت، علم اور تجربے کی گرفت سے پرے ہیں اور ان کو نہ صرف قابل گرفت کرنے بلکہ ان کے حل کے لیے ہمیں کسی ایسے فرد کی ضرورت ہے جس کے علم، تجربے اور رہنمائی سے ہم اپنے مسئلے کی نوعیت کو سمجھ سکیں اور اس کے ممکنہ حل کے لیے مشاورت لے سکیں۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اس معاملے میں اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ ان کی تعلیم اور ڈگری کبھی بھی ان کی مشکل کے حل میں رکاوٹ نہیں بنی جب بھی ان کو کوئی ایسے مسائل درپیش ہوں جن کو وہ خود سے حل نہ کر سکتے ہوں تو وہ ان مسائل کو لے کر اپنے ان پروفیشنلز سے مدد اور رہنمائی لیتے ہیں جواپنے پرو فیشنز کے ماہر ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے پروفیشن کے حوالے سے علم و ہنر اور تجربہ ہوتا ہے تو جب وہ اپنے مسائل کو لے کر ایسے پروفیشنلز کے پاس جاتے ہیں تو ان مطمع نظر بہت واضح ہوتا ہے کہ ان کو اپنے مسائل کی نشاندہی، جانچ پڑتال اور ممکنہ حل کے حوالے سے بھرپور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
جس کی بنیاد پر وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کی خود سے کوشش بھی کرتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کے ترقی یافتہ ممالک کے ڈگری ہولڈرز کا ایجوکیشنل سسٹم اور ایجوکیشنل ماڈلز ہمارے موجود ایجوکیشنل ماڈلز سے کئی گنا بہترین اور عمدہ ہیں اور اس کے ساتھ جو سب سے اہم بات جو ہم میں اور ان میں تمیز پیدا کرتی ہے وہ احساس کمتری سے بالاتر ہونا، انا پرستی کا مرض نہ ہونا اور خود کو عقل کل سمجھنے والے گھمنڈ سے پاک ہونا ہے۔