Baat Karni Mujhe Mushkil Kabhi Aise To Na Thi
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
"تم ہر وقت فون میں گھسے رہتے ہو"، "تم ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو یا کرتی ہو"، "تمہارے پاس میرے لئے کبھی وقت نہیں ہوتا"، "تم نے کبھی مجھ سے ڈھنگ سے بات ہی نہیں کی"۔
ایسے جملے اکثر شادی شدہ زندگی کی خوشی کا کباڑا کرتے ہوئے سننے کو ملتے ہیں یہ صرف جملے ہی نہیں بلکہ جملوں کے اندر چھپا ہوا وہ زہر بھی ہوتا ہے جس کی پرورش ماضی کے تجربات سے پھوٹے بہت سے منفی جذبات کر رہے ہوتے ہیں اور تکلیف ان جملوں کے نہیں بلکہ ان جملوں کو برتتے ہوئے لہجے میں انڈیلی گئی تلخی کی ہو تی ہے جو سننے والے کو ایسی صورتحال میں لا کھڑا کر دیتی ہے جیسے وہ دنیا کا عظیم الشان ظالم اور قابل نفرت شخص ہو۔
بات چیت اور گفتگو ہی وہ ذریعے ہیں جن کے اظہار سے ایک پارٹنر دوسرے پارٹنر کی ضرورت، خواہش، محبت اور نفرت کو سمجھ سکتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تعلیم یافتہ سے لے کر غیر تعلیم یافتہ ہر طرح کے جوڑوں کے درمیان بات چیت کے انداز ایسے بھونڈے ہوتے ہیں جو زیادہ غیر حقیقی اور لایعنی مسائل کو جنم دے رہے ہوتے ہیں ایک چھوٹی سی بات اس طرح سے کہی جاتی ہے کہ دوسرا پارٹنر بات پر کم مگر انداز پر زیادہ تلملا اٹھتا ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ ایک پارٹنر جو بات کے ذریعے کسی مسئلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے تو اس کا انداز، لب و لہجہ، قطیعت سے بھرپور اتنا غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ ہوتا ہے کہ دوسرا پارٹنر بات سن کر اپنا کلیجہ و جگر تھام لیتا ہے اور بے صبرے پن سے اسی لحاظ اور انداز سے غیر ذمہ دارانہ جواب دے کر تمام صورت حال کو ایک ایسی نکڑ پر لاکھڑا کرتا ہے جہاں پر دونوں اپنے آپ کو انا کی سولی پر تو لٹکا لیتے ہیں مگر سلجھاؤ اور سمجھ داری کو لات مار کر نہ صرف مزید مسائل پیدا کر لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دل سے بھی اترنے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شادی شدہ زندگی مسائل کے بغیر جینے کی تمنا ایک دیوانے کا خواب ضرور ہو سکتا ہے مگر عملی اور حقیقی طور پر اس میں ذرا بھی صداقت نہیں کہ مسائل کے بنا زندگی کا پہیہ چل سکتا ہے جب یہ بات شعوری طور پر قبول کرلی جائے اور پلو سے گرہ کی طرح باندھ لی جائے کہ مسائل تو ہوں گے چاہے ضروریات زندگی کی تمام سہولیات میسر ہو ں یا نہ ہوں تو پھر مسائل سےگھبرا ا ٹھنے کی روش میں نرمی کے آثار آنا شروع ہو جاتے ہیں اور مزاج شریف بھی تحملانہ ہونے کی خو پکڑ لیتا ہے۔
مگر اصل بات جو سمجھنے اور سیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر شادی شدہ زندگی میں مسائل کا آنا ناگزیر ہے تو ان مسائل کے بارے میں بات چیت کرنے کے حوالے سے عقلمندی اور سلجھاؤ کا انداز اپنانا ہی دراصل ان مسائل پر قابو پانے اور ان مسائل کو سمجھنے کی پہلی شرط ہے۔
مثال کے طور پر اگر ایک پارٹنر کو دوسرے پارٹنر سے کوئی شکایت ہے یا کسی ضروری مسئلے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے تو اصل گیم اس وقت شروع ہوتی ہے جب پاٹنر دوسرے پارٹنر کے سامنے وہ مسئلہ پیش کرتا ہے یا کرتی ہے چونکہ ہم نے فوری طور پر طبیعت میں ایسے خواص لانے کی تربیت لینے کی ضرورت کو کبھی محسوس نہیں کیا ہوتا جوہم کو معاملات کو عقلی طور پر سمجھنے میں مدد کرے، تاکہ ہم اپنی گفتگو کو با مقصد بنا کر اپنے متوقع مسئلہ کے حل کے لئے کوشش کر سکیں۔
جب ہم اس صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں تو ہم پہلے سے بنائے ہوئے اپنے منفی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے مسئلے کے بارے بات کم اور حملہ زیادہ کرتے ہیں کیوں کہ دوسرا پارٹنر اس حملے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا تو ہڑبڑا کر وہ اپنے ڈیفنس میں ویسے ہی جذباتی حدت کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہوئے دوسرے پارٹنر کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے مرا جا رہا ہوتا ہے۔
جس کا نتیجہ یہاں اخذ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب ایسے حملے کرکے اور حملے جھیل کر یہ جانتے ہیں کہ یہ کیسی حماقت سرزد ہوئی ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کرتے ہوئے نئے مسائل پیدا کر لئے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی بات کی اس گفتگو کے پہلے تین منٹ ہی اس بات کا فیصلہ کر دیتے ہیں کے آیا وہ بات مسئلہ کا حل نکالے گی یا مزید مسائل کو دعوت دے گی۔
ابتدئی تین منٹ کے اس گیم کو کھیلنے کے لئے مناسب وربل اور نان وربل کمیونیکیشن کی ٹریننگ کی بہت ضرورت ہوتی ہے جس میں فرد یہ سیکھ پاتا ہے کہ جو بات بھی کرنی ہے اس کو واضح انداز میں ایسے کیا جائے کہ دوسرا پارٹنر اس بات کو ذاتی حملہ تصور کئے بغیر بات کی ضرورت پر سنجیدگی سے غور کرے اور مسئلے کے فوری حل کے لیے مطلوبہ کوششوں کو عمل میں لائے اور ایسا کرتے ہوئے وہ دوسرے پارٹنر کی خواہش، ضرورت، وقار اور عزت نفس کو ترجیح دے نہ کہ وہ خود کو کسی ایسی منفی سوچ کے تابع کر لے جو اس کو کم ظرف، غیر ذمہ دار اور احمق بنانے کی طرف لے جائے۔
بات بنانے کے لیے بات کرنا ضروری ہے اور سب سے پہلی ضرورت یہی ہے کہ اپنی بات بنانے اور کہنے کی صلاحیت پر ایک عقلمندانہ نظر کی جائے اور جانچا جائے کہ آخر کیا بات ہے کہ آپ کی بات کیوں نہیں سنی جاتی؟ آپ کی بات کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی اور ہر بار بات کیوں بگڑ جاتی ہے؟ اور ان سب باتوں کو شعوری اور عملی کوششوں سے بہتر بنانے کی کوئی ترکیب استعمال کرنے کی کبھی کوشش کی ہے یا صرف اسی گمان میں غلطاں ہیں کہ دوسرا پارٹنر ہی ان کی بات نہیں سمجھتا۔
ایک بات تو یقینی ہے چاہے اس کو کوئی مانے یا نہ مانے مگر بات سمجھانا اتنا ضروری عمل نہیں ہے جتنا خود کی بات کو خود سے سمجھنا ضروری عمل ہے کہ آیا آپ کی کہی بات دوسرے کو کچھ سمجھائے گی یا غصہ بدتمیزی اور بے قدری پر اکسائے گی۔
تو کل ملا کر بات یہ ہے کہ بات کرنے کے ڈھنگ کو سیکھنا کسی بھی تعلق خاص طور پر ازدواجی تعلق کی پائیداری اور خوبصورتی کے لئے انتہائی ضروری ہے، کیونکہ ایک بار کسی سے نکاح کے ڈور میں بندھ جانے کے بعد ہمارے معاشرے میں آپشنز محدود ہو جاتے ہیں کہ ہم کوئی اور آپشن زیر غور لاکر روز روز کی کھچ کھچ اور بدمزگی سے پیچھا چھڑا لیں جبکہ بہتر یہی ہے کہ قرینے سے اپنی بات چیت کی صلاحیت اور اس کو موثر بنانے کے لیے عملی کوشش کرتے ہوئے کسی پروفیشنل کی رہنمائی لیں تاکہ آپ زبان کی وجہ سے زندگی بھر کی مصیبت کو دعوت نہ دے لیں۔
نفسیات کی بہت سی تحقیقات اس بات کو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ سب سے زیادہ طلاق کی شرح ان شادی شدہ جوڑوں میں ہوتی ہے جن کی آپس کی بات چیت کے انداز ڈھنگ اور طریقے مسلسل ذہنی اور جذباتی دباؤ ڈالتے ہوں۔
اب اگر اوپر بیان کردہ جملوں کو نئے انداز سے بیان کیا جائے جس کو نفسیات میں ریفریز کرنا کہتے ہیں، تو ممکنہ طور پر جملہ صرف جملہ رہے گا حملہ نہیں بنے گا
"تم ہر وقت فون میں گھسے رہتے ہو"، {کیا آپ کچھ دیر کے لیے فون سائیڈ پر رکھ کر مجھے توجہ دیں گے ایک ضروری بات کرنی ہے}۔
"تم ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہو یا کرتی ہو"، {اچھا سنیں ہمیں ایک اہم بات کرنی ہے}۔
"تمہارے پاس میرے لئے کبھی وقت نہیں ہوتا"، {اچھا آپ اپنا کام کر لو تو پھر مجھے آپ سے کچھ وقت چاہیے}۔
"تم نے کبھی مجھ سے ڈھنگ سے بات ہی نہیں کی"، {آپ کی بات کبھی کبھی مجھے سمجھ نہیں آتی لیکن میں چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں کہ آپ سے بات کروں }۔