Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taimoor Khattak
  4. PP 90 Bhakkar Ki Surat e Haal

PP 90 Bhakkar Ki Surat e Haal

پی پی90 بھکر کی صورتِحال‎‎

تحریک عدم اعتماد کے بعد جو وطن عزیز کی صورتحال بنی ہوئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے 20 منحرف اراکین کے ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا ہوا ہے۔ ضمنی الیکشن اگلے مہینے 17 جولائی کو ہونگے، یہ بیس سیٹیں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ پنجاب کی حکومت ان بیس سیٹوں پر منحصر ہے۔ جو بھی یہ بیس سیٹیں اکثریت کے ساتھ جیتے گا وہ پنجاب میں حکومت کر سکے گا۔

کیونکہ جب پنجاب کے وزارات اعلیٰ کے لیے ووٹنگ ہونی تھی تو تب پی ٹی آئی کے پارٹی رکنوں نے اپنے پارٹی کے مخالف، ووٹ حمزہ شہباز کو ووٹ دیئے تھے جس کے بعد پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے ان کو ڈی سیٹ کیا اور ان بیس حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا، اب اس ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد دوبارہ دیکھا جائے گا کہ پنجاب کی حکومت کون کرے گا؟

پنجاب کی حکومت کے علاوہ یہ بیس سیٹیں آنے والے جنرل الیکشن کے لیے بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ جس طرح عمران خان نے "بیرونی سازش کا بیانیہ" عوام میں مقبول کیا ہوا ہے تو ان بیس سیٹوں سے آنے والے جنرل الیکشن کا رجحان بھی معلوم ہو جائے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا عوام واقعتاً بیرونی سازش سمجھتی ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آنے والے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پتہ چل جائے گا۔

پچھلے دنوں پی ٹی آئی اور ن لیگ نے ان بیس حلقوں میں اپنے اپنے نمائندوں کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ ان تمام بیس حلقوں میں بہت دلچسپ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے پی پی 90 (بھکر) کے حلقہ کا بھی بہت دلچسپ منظر بنا ہوا ہے۔ اس حلقے میں عمران خان نے عرفان اللہ نیازی کو ٹکٹ جاری کیا جو کہ عمران خان کا کزن بھی ہے اور وہ ماضی میں عمران خان سے بھی انتہا کی مخالفت رکھتے تھے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی عرفان اللّٰہ نیازی جو ٹکٹ لینے سے پہلے تک ن لیگ کے ضلع کے جنرل سیکرٹری بھی تھے اور 2018 کے الیکشن میں اسی حلقے میں ن لیگ کی ٹکٹ پر لڑے اور ہار گئے تھے اور اسی حلقے پی پی 90 میں پی ٹی آئی نے 2018 میں احسان اللّٰہ خان کو ٹکٹ دیا جو بری طرح ہار گئے تھے۔ سعید اکبر نوانی جو پی پی 90 سے 2018 میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے اور پھر بعد میں جہانگیر ترین کی کاوشوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے، اب ن لیگ نے سعید اکبر نوانی کو اسی پی پی 90 میں ن لیگ کا ٹکٹ جاری کیا۔

جب تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران خان کے جہانگیر ترین سے تعلقات خراب ہوے تو اس کے نتیجے میں جہانگیر گروپ کے ساتھیوں نے پارٹی مخالف ووٹ دیکر پنجاب میں عمران خان کی حکومت گرا دی۔ اب اس حلقے میں عرفان اللّٰہ نیازی اور سعید اکبر نوانی کا کانٹے دار مقابلہ ہو گا، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ان بیس حلقوں کی مہم کے لیے باری باری ہر حلقے میں جا رہے ہیں اور اپنے امیدواروں کے لیے بھرپور زور لگا رہے عمران خان، عرفان اللّٰہ نیازی کی مہم کے لیے 12 جولائی کو دریاں خان حلقہ پی پی 90 میں بھی اپنی انٹری ماریں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ن لیگ کا صدر اور انکی ٹکٹ پہ لڑنے والا شخص اچانک کیسے پی ٹی آئی میں آ گیا؟ تو اس میں معتبر لوگ جنہوں نے عمران خان کی صلاح اور ٹکٹ دلوانے میں مدد کی ان میں خاص کر عمران خان کے بھانجے زبیر خان نیازی، حسام خان نیازی، رفیق خان نیازی اور مستفی ایم این اے ثناءاللہ مستی خیل نے خاصا کردار ادا کیا، جس کی بدولت عرفان اللّٰہ نیازی کے ساتھ صلاح اور ٹکٹ بھی دلوائی گئی۔

بھکر میں شروع دن سے ہی دھڑے بندیاں اور برادریوں کی بنیاد پر الیکشن جیتا جاتا تھا، یہاں پر یہی چند جاگیردار اور وڈیروں نے حکومت کی ہے۔ ڈھانڈلہ خاندان، نوانی خاندان، نیازی خاندان، شہانی، چھینہ، مستی خیل گروپ اور خننانخیل برداریاں ہی شروع سے حکومت کرتی آ رہی ہیں۔ اب اس پی پی 90 میں عرفان اللّٰہ نیازی کو چھینہ، شہانی، حسن خیلی اور مستی خیل گروپ کی حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف سعید اکبر نوانی کو خننانخیل، عنصر چھینہ گروپ کی حمایت حاصل ہے۔

ڈھانڈلہ جو 2018 میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ این اے 98 پر الیکشن لڑے اور جیت گئے لیکن تحریک عدم اعتماد کے بعد وہ دوبارہ ن لیگ میں آ گئے لیکن چونکہ ضلع لیول پر ڈھانڈلہ اور نوانی آپس میں سخت اختلاف رکھتے ہیں تو اب ایک ہی ن لیگ پارٹی میں ہونے کے باوجود ڈھانڈلہ گروپ سعید اکبر نوانی کی پی پی 90 میں سپورٹ نہیں کر رہے۔

بھکر میں یہ پہلی بار اتنی نئی تبدیلییاں آئی ہیں اور نئے سے نئے اتحاد سامنے آ رہے ہیں جو پہلے کبھی ایک دوسرے سے سلام لینا بھی گورا نہیں کرتے تھے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ یہ نئے اتحاد کتنی دیر ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں اور اس حلقے میں کون سا امیدوار معرکہ مارتا ہے؟

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq