Kirdar Ka Inqilab, Khudi Mein Tabdeeli
کردار کا انقلاب، خودی میں تبدیلی
ہم نے 1947 سے لیکر آج 2022 تک یہی خیال کیا کہ نیا آنے والا سیاستدان پچھلے سے بہتر ہوگا اور یہ قوم اور ملک کے بے شمار مسائل کو "چھو" کر کے بہتر کر دے گا اور پھر اسی خیال سے ہم مارکیٹ میں نئے آنے والے سیاستدان کیلئے اپنے دل میں راہ ہموار کر دیتے ہیں اور پھر جب تک اس کے متبادل کوئی مارکیٹ میں نیا عظیم سیاستدان نہیں آتا تب تک ہم اس ٹرک کی بتی کی طرح پچھلے "سیاسی ٹرک" کیلئے دل وجان کے ساتھ نعرے لگاتے رہتے ہیں اور اس کو سر آنکھوں پر سجا کر رکھتے ہیں۔
ہر بار ہم نے ایسا ہی کیا ہے اور ہمیشہ کی طرح پچھلے سے زیادہ نقصان کھایا ہے، میں زیادہ پیچھے نہیں جاؤں گا ہم زرداری، شریف اور عمران خان سے شروع کر دیتے ہیں، ہم نے ان کو آزمائش کیلئے کیا کیا نہیں کیا؟ ایک کو حکمرانی دینے کیلئے کیا نہیں کیا؟ کہ اب بھی ہم پچھلے برسوں سے اپنے پیروں پہ کھڑے نہیں ہو پارہے، آج بھی 1947 والی امریکن یورپین ایڈ پر ہم گزارا کر رہے ہیں، ہم قرض سے نجات حاصل نہیں کر پا رہے ایسا کیوں ہے؟
آج تک کسی نے اس کے بارے میں نہیں سوچا آخر کیوں؟ ہم قرض پہ قرض لے رہے ہیں اور وہ بھی سود پر، کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس میں سود کی اجازت ہوگی؟ کیا ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ اس میں شراب خانے کھولیں جائے گے؟ ناچ گانوں والوں کو تمغا امتیاز اور قوم کی عمارت کھڑی کرنے والوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائے گی؟ اور ان کو زلیل و رسوا کیا جائے گا، میری مراد "اساتذہ کرام" سے ہے۔
اساتذہ کرام سے بھی ایک شکوہ ہے کہ آج جب بھی میں سوشل میڈیا کھولتا ہوں ہو تو نوجوان نسل کسی ایک پوسٹ پر بحث ومباحثہ میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کیلئے نازیبا الفاظ نکال دیتے ہیں جوکہ نوجوان نسل میں قتعن نہیں ہونا چاہیے، اگر ہمارے اساتذہ کرام ہماری نوجوان نسل جو کہ تقریباً وطن عزیز میں ساٹھ سے ستر فیصد ہے اگر انکی تربیت میں کردار ادا کردے جس طرح اقبال اور قائد کے اساتذہ کرام نے کی تھی تو یقیناً یہ وطن ایک بار پھر روشنیوں کا دور دیکھے گی، بچوں کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بحث ومباحثہ کا طریقہ بتانا چاہئے کہ کسی کے ساتھ بات چیت کس طرح شروع اور ختم بغیر گالم وگلوچ کے کی جاتی ہے لیکن افسوس آج اس تربیت کا بہت فقدان ہے۔
پاکستان کی تعمیر کیوں کی گئی تھی؟ مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ علامہ اقبال کا خواب اور قائد اعظم کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو، معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں، جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں، جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو، جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو، جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو، جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو، الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
کسی کو خبر نہیں ہر کوئی اپنا راگ الپ رہا ہے، خیر بات بہت آگے نکل جائے گی، میرا نقطہ آج کے موجودہ حکمرانوں سے ہے۔ کیا یہ عوام اور وطن عزیز کیلئے دکھ رکھتے ہیں؟ کیا ان کو فکر ہے ہمارے وطن عزیز میں پسماندہ علاقوں میں لوگ کس کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا ان کو کوئی فکر ہے آج کا مسلمان کس قدر زلیل وخوار ہو رہا ہے؟ یقیناً ہم سب کو پتہ ہوگا اور ہمارا جواب ہوگا "نہیں" لیکن پھر بھی ہم ان کو سپورٹ کرتے ہیں، کیوں؟ ان کی تائید کیوں کرتے ہیں، ان کےلئے ایک دوسروں سے رشتہ ناطہ توڑ دیتے ہیں، انکے لیے لانگ مارچ سے لیکر خود پر ڈنڈا مارچ بھی کرواتے ہیں، ان کیلئے ناجانے کیا کیا نہیں کرتے؟
آج تک ہم اس بات پر تحقیق نہیں کرتے کہ ان کے ہم دیوانے کیوں بن جاتے ہیں؟ اس لیے آج ہم زلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور یہ حکمران آج بھی کوئی یورپ تو کوئی امریکہ تو کوئی دبئی میں اپنی جائیدادیں بنا کر وہاں مزے اڑا رہا، اگر ہم سوچے تو اس ملک میں کیا کیا نہیں ہوا، آڈیولیک، ویڈیو لیک نہ جانے کیا کیا ہوچکا ہے لیکن مجال ہے کہ ان حکمرانوں پر کوئی اثر ہوا ہوں جسکی بھی کوئی خبر لیک ہوگئی اس نے اسکو اپنے مفاد میں تبدیل کر کہ پیش کر دینا ہے اور اپنے فین کو تسلی دے دی کہ یہ ان کیخلاف ایک سازش ہے۔
اگر پوری قوم بیدار نہیں ہوگی، تو یوں ہی ان فلمی اداکاروں کے بیچ ہم زلیل ہوتے رہے گے اس لیے وطن عزیز کیلئے آج بھی وقت ہے کہ اپنی قوم اور انسانیت کیلئے بیدار ہوجائے اور وطن عزیز میں ایک "کردار کا انقلاب خودی میں تبدیلی" کیلئے عزم کردیں، اگر کوئی آج ہمارے وطن کی حالت ٹھیک کر سکتا ہے تو وہ صرف میں اور تم ہو سکتے ہیں، اور یہ تب ممکن ہے جب ہم خود میں تبدیلی لائیں گے۔