Hum Kis Taraf Ja Rahe Hain?
ہم کس طرف جارہے ہیں؟
جب بھی کسی جماعت کی حکومت آتی ہے وہ دوسری جماعت کیلئے ایک نئی اور لمبی فہرست بنا لیتی ہے کہ اس کو کس کس طرح اور کہاں کہاں سے ڈھسنا ہے کہ وہ دوبارہ برسرِ اقتدار میں نہ آ سکیں اور ہم ہی ہمیشہ کیلئے اس آرام دہ سلطنت کی کرسی پر بیٹھے رہیں جس کرسی کو ہمارے خلفاء راشدین نے اپنے لیے بوجھ اور ذمہ داری سمجھا۔
آج کے حکمران جیسے ہی اقتدار میں آتے یا اقتدار پہ قابض ہونے کے قریب ہوتے ہیں تو پہلے سے ایک دوسرے کو تنبیہ کرتے ہیں کہ فلاں کو نہیں چھوڑیں گے فلاں نے یہ کیا تھا تو اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھیں گے۔ ایسے جملے ہر جماعت اپنے اقتدار میں آنے سے پہلے یا اقتدار میں دہراتی ہے اور اسی طرح ان جماعتوں کے چاہنے والوں پر بھی قربان جاؤں جب ان کے نظریات کے حامی کوئی جماعت آتی ہے تو ان کو بڑی خوشی ہوتی کہ اب بڑا مزہ آئے گا اب انکی خیر نہیں ہے پچھلے تمام بدلے اب ان سے لیں گے وغیرہ وغیرہ۔
افسوس ان جماعتوں اور ان کے حامی خیالات چاہنے والوں پر، آج اگر وطن عزیز کی نازک حالت کو اگر دیکھا جائے جس میں ہمیں دوست ممالک سے پیسے مانگنے پڑتے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضے لینے پڑتے ہیں، ہر دوسری چیز امپورٹ کرنی پڑتی ہے ایسی کوئی چیز اس پیارے وطن عزیز میں نہیں بنائی جاتی جس سے ہمارے خزانے کو سہارا ملا، ہمارا وطن پاکستان ایک زراعتی خطہ جس سے ہم اپنی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ دوسرے ممالک کی بھی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
لیکن بصد افسوس کہ ہم زراعتی خطہ ہونے کے باوجود ہم گندم، دھاگہ، چینی، تیل اور دالیں و سبزیاں سمیت چیزوں کو امپورٹ کرتے ہیں اور ان جملہ تمام مسائل کے باوجود ہمارے حکمران ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اور ایک دوسرے پر غداری اور طرح طرح کے فتوؤں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، وطن عزیز میں جنگل کا قانون سا ماحول بنا دیا گیا ہے جس میں بغیر کسی تعارف و تحقیق کے کسی پر بھی کوئی فرد جرم ڈال کر اس کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔
صرف و صرف اپنی ذاتی انا اور بقا کی خاطر کسی انسانیت کی پرواہ کیے بغیر اس کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ 25 مئ کو جو ہوا تھا جس میں سفید پوش گھروں کی دیواریں پھلانگی گئی، لوگوں کو بغیر کسی تحقیق کے مارا پیٹا گیا اور ان کو صرف اس بنیاد پر ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کا تعلق کسی دوسری جماعت سے تھا اور آج پھر تمام تر وطن عزیز کے مسائل کے باوجود صرف و صرف ایک دوسرے کو نشانہ بنا کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
کہ فلاں پنجاب میں گھسے گا تو فوراً پکڑا جائے گا تو فلاں اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو گا تو وہ کسی جرم میں شامل ہو جائے گا، شہباز گل کا بیان ہماری دفاع کے بارے میں بالکل سو فیصد غلط ہے اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے لیکن کیا اس کو جس طرح پکڑا گیا کیا یہ کسی آئینی معاشرے میں ایسا ہوتا ہے؟ کیا کسی آئینی معاشرے میں بغیر کسی تعارف و تحقیق کے پکڑا جاتا ہے؟
ایسے لگتا ہے ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں جس میں جس کا جی چاہتا ہے وہ دوسرے کو نوچ لیتا ہے اور اپنی بھوک کو مٹا لیتا ہے، نہ کسی کو آئین کی فکر نہ کسی قانون کی بس سب ہی اپنے آپ کو آئین اور قانون سمجھتے ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لیے ہر بندہ اپنے اختیار میں اسکی دھجیاں اڑا رہا ہے۔