Daur e Jadeed Ka Class Decorum
دؤر جدید کا کلاس ڈیکورم
ہم کلاس روم میں بیٹھے تھے۔ سب دوست احباب ایک دوسرے سے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ میں اور میرا دوست شرافت علی جن کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع سکردو سے ہے۔ ہم روز ایک نئے کاروبار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ آخر الذکر ہمارا کاروبار باتوں کی طرح ٹھپ ہو جاتا ہے۔ اس دن معمول کے مطابق گفتگو ہو رہی تھی کہ ہم سب کے ہی پسندیدہ سر محترم ندیم جعفر صاحب کمرے میں داخل ہوگئے۔
سر نے ہمیں تیسرے سمیسٹر میں تکنیکی اردو کا کورس کروایا ہوا تھا جوکہ ہمارا آن لائن گزرا تھا، ہم آن لائن میں کسی بھی ٹیچر سے اتنے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ لیکن سر ندیم جعفر وہ واحد سر تھے، جن سے ہم آن لائن میں بھی مطمئن تھے۔ حالانکہ وہ ہمیں تب بھی کہا کرتے تھے کہ میں کلاس روم کا ٹیچر ہوں اور کہتے تھے کہ آن لائن میں مجھے بذات خود بھی مزہ نہیں آتا، اس بار وہ ہمیں کالم اور فیچر نگاری کا کورس کروا رہے ہے۔
خیر جب وہ اس دن کلاس روم میں داخل ہوئے تو ہم سب اپنے خیالوں میں تھے۔ سر کلاس روم میں آکر کچھ دیر خاموش ہونے کے بعد ہم سے سوال کرنا شروع ہوگئے کہ آپ لوگ اس عمر تک کتنی کلاسز مکمل کر لی؟ کتنے اساتذہ کرام سے پڑھا؟ پھر خود ہی جواب دیا سولہ کلاسز تقریباً اور تین چار سو اساتذہ سے پڑھا ہوگا۔ ہم بڑے پریشان کے سر خود ہی سوال پوچھ رہے ہیں۔
اور خود ہی جواب بھی دے رہے ہیں اور آخر سر نے خود ہی کہہ دیا کہ بیٹا آپ لوگوں نے بہت ساروں اساتذہ کرام سے پڑھا مختلف اداروں سے پڑھا لیکن آپ نے استاد کا احترام نہیں سیکھا۔ ہم پھر حیران ہو رہے تھے کہ ایسا ہم سے کیا ہوگیا؟ ہم سے کیا غلطی ہوگئی ہے؟ کیونکہ آج تک کسی بھی ٹیچرز نے ایسا نہیں کہا تھا یہ بات ہمارے لیے زرا معمول سے ہٹ کر تھی۔
لہذا سر نے ہمارے حیران کن چہروں کو بھانپتے ہوئے خود ہی کہا کہ آپ لوگ استاد کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے۔ جب میں کلاس روم میں داخل ہوا یہ بات سننی تھی کہ ہم سب کلاس فیلو جیسے سکتے میں چلے گئے، سر انتہائی غصے کے عالم میں لگ رہے تھے، کوئی بھی کلاس فیلو اس قابل نہیں تھا کے سر کو کیا کہے معزرت کریں یا کیا کرے؟
اس دن مجھے اپنا سکول وکالج کا دور یاد آیا کہ ہم تو اپنے سکول اور کالج میں تو ہم جیسے ہی استاتذہ کرام کلاس روم میں داخل ہوتے ہم فوراً سے ادب سے کھڑے ہو جاتے، میرے دماغ میں بہت سارے سوالات پیدا ہونا شروع ہو گئے، میں نے سر سے بات کرنا چاہی اور سر کو کہا کہ سر ہم کالج لیول تک ہم کلاس میں جب بھی کوئی ٹیچر داخل ہوتا تو ہم سب کلاس فیلو کھڑے ہو جاتے سلام کرتے سر آگے سے وعلیکم سلام کا جواب دیتے۔
اور ہم سر کا حال پوچھتے اور سر ہمارا بھی حال معلوم کرتے، لیکن سر تب زرا اس دن غصے میں لگ رہے تھے، میں نے ابھی بات مکمل نہیں کی تھی اور سر نے شاید میری بات کو اس طرح سمجھ لیا تھا کہ صرف کالج لیول تک احترام کرنا چاہیے۔ سر نے کہا کہ ہر لیول پر اساتذہ کا احترام کرنا چاہیے، ہم سب نے اس بات سے اتفاق کیا اور کرنا بھی چاہیے۔
اور سر نے آخر میں کہا کہ آپ لوگوں کا بھی قصور نہیں ہے، پچاس فیصد ہم اساتذہ کرام نے بھی کلاس روم کا ڈیکورم خراب کیا ہوا ہیں، ہم نے ٹیچنگ کو کاروبار سمجھ لیا جوکہ ہمیں ایسے نہیں کرنا چاہیے، میرا جو بات مزید کرنے کا مقصد تھا یا میں جو بتانا چاہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ آج کل اس طرح ٹیچر کے احترام میں کھڑے ہونے کا رواج ہی ختم کر دیا گیاہے۔
کیونکہ شروع دن سے ہی نہ ہی ہم اور نہ ہی کسی ٹیچرز صاحب نے ایسے احتراماً کھڑا ہونے کو کہا ہم اب تک یونیورسٹی میں تقریباً پچیس سے تیس اساتذہ سے پڑھ چکے ہیں، میرے خیال میں یونیورسٹیز میں اساتذہ کرام نے کلاس کا ماحول بہت زیادہ خراب کیا ہے، میں اپنی کلاس کی بات کروں گا، کوئی بھی بچہ بغیر اجازت کے اندر داخل ہو رہا ہوتا ہے، اور بغیر اجازت کے باہر جا رہا ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ اساتذہ کرام کی نفی ہے کہ کوئی بچہ کیسے باہر اور اندر بغیر اجازت کے آ جا رہا ہے، ہر لہذ سے اگر دیکھا جائے تو استاد کا مقام بہت بلند ہے، حقیقی باپ کے بعد اگر دنیا میں اگر کسی کا مرتبہ بنتا ہے تو وہ واحد استاتذہ کرام کا بنتا ہے، مولا علی علیہ سلام کا قول ہے۔ جس کا مفہوم ہے کہ "اگر کسی نے آپکو ایک لفظ بھی سمجھایا وہ بھی آپکا آقا ہے۔
لہذا ہمارا معاشرہ جوکہ ایک غلط سمت کی طرف گامزن ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہمیں استاتذہ کرام کی عزت کا پہلو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ استاد ہی اس دنیا میں وہ واحد ہستی ہے۔ جو ایک طالب علم کو بلند مقام اور با کردار بنانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ حصول ِعلم کے بنیادی ارکان میں اہم رُکن استاد ہے، تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے۔
اسی طرح حصول ِعلم میں استاد کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ استاد کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اورادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہوجائے، مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے "باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب" استاد کےادب سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے ایک شخص سے فرمایا، اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ بے شک تم سے تمھارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اسے سکھایا اور تمھاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سےسوال کیا جائے گا۔