Yaadein Mulaqaten
یادیں ملاقاتیں
باجی گھر پہ ہیں؟
بیل بجانے کے کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک لڑکے نے باہر جھانکا۔ سوال کرنے والی ایک نوعمر لڑکی تھی۔
نہیں، لڑکے نے ترنت جواب دیا۔
میں باجی ک کا پوچھ رہی ہوں، لڑکی نے پھر پوچھا۔
میں بھی انہی کا بتا رہا ہوں۔۔
لیکن، وہ تو، لڑکی کچھ کہتے کہتے رک گئی۔۔ پھر پوچھنے لگی کہاں گئی ہیں؟
لڑکے نے بیزاری سے جواب دیتے ہوئے کہا، مجھے کیا پتہ؟
اچھا خالہ جی ہیں اندر؟ نوعمر لڑکی نے پوچھا۔
نہیں وہ بھی نہیں ہیں، لڑکے نے مزید بیزاری سے جواب دیتے ہوئے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔
اچھا خالو جی تو ہوں گے نا، نوعمر لڑکی ہار ماننے پہ آمادہ نہیں تھی۔
کہہ دیا نا، کوئی گھر پہ نہیں ہے۔۔ لڑکے نے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا۔
ہٹو، مجھے اندر آنے دو، لڑکی نے کہا۔
کہا نا کوئی گھر نہیں ہے۔۔ لڑکے نے پھر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔
لڑکی نے جلدی سے پاؤں دروازے میں پھنسا کر کہا، ہٹو، سامنے سے ہٹو، کہتے ہوئے اندر داخل ہوگئی۔
ڈیوڑھی سے گزر کر جونہی صحن میں پہنچی۔۔ خالو نظر آئے جو کرسی پہ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
سلام خالو جی۔۔ لڑکی نے مودبانہ سلام کیا۔
وعلیکم السلام، جیتی رہو۔۔ انہوں نے ہاتھ اُٹھا کر جواب دیا۔
خالہ جی ہیں اندر،؟ لڑکی نے پوچھا
ہاں کچن میں ہیں۔۔
اور باجی؟
وہ بھی ہیں۔۔
لڑکی نے مڑ کر لڑکے کی طرف دیکھا جو پاؤں پٹختے ہوئے بیٹھک کی طرف جا رہا تھا۔ لڑکی کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔
وہ کتاب پڑھ رہی تھی جب شمی اسے باجی کا پیغام دینے آئی۔ باجی کہہ رہی ہیں جلدی آئیں۔۔ خاص پروگرام ہے۔
باجی ک کا پیغام سنتے ہی وہ پلنگ سے چھلانگ لگا کر اتری، جوتا پہنا، امی۔۔ امی، باجی نے بلایا ہے، میں جا رہی ہوں۔ امی جا جواب سننے سے پہلے ہی وہ گھر کی ڈیوڑھی ہار کر گئی۔
باجی ک کا گھر ساتھ والی گلی کے آغاز میں تھا۔ باجی تین بھائیوں کی چھوٹی بہن تھیں، بہت لاڈلی، دو بڑے بھائی سعودیہ ہوتے تھے سو گھر میں خوشحالی کے آثار نہایت نمایاں تھے۔ رنگین ٹی وی بھی باہر سے آیا تھا اور دو دروازوں والا فریج بھی۔ باجی اور ان کے تیسرے نمبر والے بھائی کو انڈین فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ باجی کے گھر رنگین ٹی وی تو تھا مگر وی سی آر بازار سے کرائے پہ منگوایا جاتا۔ کبھی کبھار باجی کا کزن بھی اس پارٹی میں شریک ہوتا۔
باجی ک کی کوئی چھوٹی بہن نہیں تھی سو باوجود عمر کی تفریق کے ہماری ان سے دوستی تھی۔ انہیں بازار جانا ہوتا، ہم ساتھ چل پڑتے۔ فلمیں دیکھنا ہوتیں ساتھ بیٹھ کر دیکھتے، باتیں کرنا ہوتیں وہ بھگارتے۔
اصل میں باجی کی دوست جو ان کی ہم عمرے تھیں، ہماری کزن تھیں جو ان کے ہمسائے میں رہتی تھیں مگر ان کے لیے گھر سے نکلنا آسان نہیں تھا۔ ہمارا معاملہ کچھ اور تھا۔ ایک توہم نے ابھی جوانی کی منزلیں سر نہیں کی تھیں، دوسرے سب جانتے تھے کہ ہمیں روکنا آسان کام نہیں، آپ ہدری ہے بالکل۔
سو اس دن بھی یہی ہوا تھا۔ ادھر گھر میں وی سی آر لانے کا پروگرام بنا ادھر باجی نے ہمسایوں کی چھوٹی بچی کو پیغام رساں بنا کر ہمارے گھر بھیجا کہ فوراََ پہنچو۔ ان دنوں فون تو تھے نہیں کہ گھر بیٹھے جادوئی آلے پہ نمبر گھماؤ اور سب کہہ ڈالو۔
باجی ک کے کزن نہ جانے ہم سے کیوں چڑا کرتے تھے سو اس دن جب وی سی آر کا پروگرام بنا، انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ ہمیں نہیں بلایا جائے گا۔ باجی نے جھٹ ہاں میں سر ہلا دیا تاکہ وی سی آر تو آئے مگر ہمارے بغیر فلم کا کیا مزہ سو چپکے سے ہمسایوں کی بچی بھی روانہ کر دی۔
جب ہم نے گھنٹی بجائی، اتفاق سے کزن صاحب دروازے کے قریب تھے سو وہی آ پہنچے۔ ہمیں دیکھ کر سٹپٹائے اور دفعان کرنے کا سوچا۔ خوب بہانے بنائے۔ ہم یقین کر لیتے اگر ہمیں پیغام نہ ملا ہوتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں بلائیں، ہم فوراََ پہنچیں اور وہ بازار روانہ ہو جائیں۔ ویسے بھی وہ کہاں بازار جاتی تھیں اکیلی؟
جب ہم نے باجی ک کو بتایا تو وہ خوب ہنسیں اور شرط کا حال بتایا۔ پھر کہنے لگیں، مجھے پتہ تھا تم اندر تک پہنچ ہی جاؤ گی، کوئی کتنا ہی کیوں نہ روکے؟
اس دن دو یا تین انڈین فلمیں دیکھیں، چائے پی، مونگ پھلی کھائی اور ہم اور باجی خوب ہنسے، کزن منہ بنائے بیٹھے رہے۔ مزے کی بات یہ کہ بعد میں انہی کزن سے باجی کی شادی ہوئی۔ ہم سے چڑنا چھوڑا کہ نہیں۔۔ یہ ہم نہیں جانتے۔
آج اس واقعے کی یاد یوں آئی کہ بہت عرصے بعد باجی ک سے فون پہ بات ہوئی۔ خیر سے نانی دادی بن چکی ہیں لیکن ابھی بھی وہ دن یاد کرتی ہیں جب ہم اکھٹے بیٹھ کر امیتابھ بچن کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔