Sarkari Haspatalon Ka Ye Rukh Kon Dekhta Hai?
سرکاری ہسپتالوں کا یہ رخ کون دیکھتا ہے؟
پہلا منظر؛
سٹریچر پہ پڑی لڑکی زندہ تو تھی مگر حالت مردوں سے بدتر۔ پیلی پھٹک رنگت، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پپڑی زدہ ہونٹ، بے چینی سے سر پٹختی۔۔ موت ہاتھ تھامے بیٹھی تھی۔
سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کے لیے یہ منظر معمول کا حصہ ہے۔ دور دراز دیہات سے آئی چارپائی پر پڑی ہوئی نیم مردہ حاملہ عورت، تین چار ضعیف بڑی بوڑھیاں، ایک آدھ کمر خمیدہ شاطر دائی۔
جی تین دن سے چھوری کو درد لگے۔۔ بچے کا سر بالکل سامنے۔۔ ہر منٹ پہ لگے کہ اب نکلا کہ اب۔۔ زور لگا لگا کے بے حال چھوری۔۔ ذرا دیکھو ڈاکٹر جی۔
ڈاکٹر جی دیکھتی ہیں اور چیختی ہیں۔۔
موت کے دروازے پر پہنچا کر لے آئے ہو تم لوگ، جلدی نہیں لا سکتے۔۔
وہ جی مائی ساتھ ہی ہے، بڑی قابل سمجھ دار۔۔ گاؤں میں سب چھور چھوریاں اسی کے ہاتھوں سے ہوتے ہیں۔۔
ہاں بڑی سمجھ دار۔۔ ایسے ہی ہوتے ہوں گے جیسے یہ بچہ۔۔ مر چکا ہے یہ بچہ، دل کی دھڑکن نہیں ہے، لڑکی کی جان بھی خطرے میں ہے، بچے دانی پھٹ چکی اور خون پیٹ میں جمع ہو رہا ہے۔۔ آپریشن کرنا پڑے گا۔۔ چار بوتل خون کا بندوبست کرو۔
ہائے ڈاکٹر جی آپریشن۔۔ بڑا یا چھوٹا؟
مائی، لڑکی مر رہی ہے، تمہیں بڑے چھوٹے کی پڑی ہے۔
ڈاکٹر صیب۔۔ سنا ہے بڑے آپریشن کے بعد عورت کسی کام کی نہیں رہتی۔
او مائی، یہ جو لڑکی لائے ہو نا، یہ ابھی بھی کسی کام کی نہیں رہی۔ بچ جائے تو شکر کرنا۔۔ چلو خون کا بندوبست کرو۔
خون۔۔ وہ کہاں سے ملے گا جی؟
خون دینا پڑے گا۔۔ اسکے شوہر، باپ بھائی تو ہوں گے نا ساتھ۔۔ وہ دے دیں ایک ایک بوتل۔
ناجی نا۔۔ شوہر تو نماڑا کمزور بڑا ہے وہ کیسے دے گا خون کی بوتل؟ اس کے بھائیوں سے پوچھ لو۔
او مائی۔۔ تم کیا لگتی ہو؟
جی بہو ہے یہ میری۔۔
ایک بات بتاؤ مائی اس کے پیٹ میں بچہ تمہارے بیٹے کا ہے یا اس کے بھائیوں کا؟
توبہ توبہ۔۔ ڈاکٹر صیب۔۔ بے شرمی کی باتیں تو نہ کرو نا۔
تو کیا کروں؟ تم لوگ سنتے جو نہیں۔
جی آپ کے پاس سے خون نہیں ملے گا؟
ہاں وہ سامنے ٹونٹی لگی ہے۔۔ بھر لو جا کر خون کی بوتل۔۔ لڑکی بے چاری مر رہی ہے اور انہیں بیٹے کی کمزوری یاد آ رہی ہے۔
آہستہ آہستہ ساری بوڑھی عورتیں کھسکنا شروع ہوجاتی ہیں۔۔ آخر انہوں نے لڑکی کو ہسپتال پہنچا دیا ہے اب وہ جانیں اور ان کا کام۔۔
ڈاکٹر شہلا۔۔ اس بے چاری کے منحوس گھر والے تو غائب ہو گئے ہیں تمہارے پاس صدقے زکات کے کوئی پیسے پڑے ہیں کیا؟
دیکھتی ہوں۔۔
پلیز چوکیدار کو دے کر کینولا تو منگواؤ۔۔ سنو بلڈ بینک فون کرو۔۔ اگر ڈونیشن کی کوئی دو چار بوتلیں ہو تو بھیج دیں ہمیں۔۔ بلڈ پریشر گر رہا ہے۔۔ -فورا آپریشن نہ کیا تو مر جائے گی۔
رضیہ، آپریشن تھیٹر کو کہو تیاری کریں۔ فرزانہ، سینئیر ڈاکٹر کو کال کرو کہ ہمیں ان کی ضرورت ہے، کیس پیچیدہ ہے۔ فیروزہ تم اینیستھٹسٹ کو کال کرو فورا پہنچیں۔۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔ چلو شاباش بچیو جلدی جلدی۔
رجسٹرار ڈاکٹر ہاؤس جاب کرنے والوں کو ڈاکٹروں کو چاروں طرف دوڑاتی ہے۔۔ خون کا بندوبست، دوائیوں کا انتظام۔۔ آپریشن تھیٹر کی تیاری۔۔ انیستھٹسٹ اور سینئیر ڈاکٹر کو کال۔۔
ایک ڈاکٹر بھاگی ہوئی آتی ہے۔۔
میم، انیستھٹسٹ کی کال نہیں مل رہی۔۔ افوہ، ڈاکٹر ناصر سوئے ہوں گے، انہیں جگانا اتنا مشکل۔۔ لیکن وہ بھی کیا کریں۔۔ سارا دن آپریشن تھیٹر میں پتہ نہیں کتنے آپریشن کروائے۔۔ -پانچ بجے گھر گئے۔۔ اور اب رات کی ڈیوٹی۔۔ چلو دوبارہ کال کرو۔۔ نہ اٹھائیں تو ان سے سینئیر کو بلا لو۔
ایک اور ہاؤس جاب کرنے والی ڈاکٹر بھاگی آتی ہے۔۔ جی سینئر ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے، وہ کہہ رہی ہیں کہ گاڑی بھیجو۔
چلو بچے۔۔ ایمبولینس کے ڈرائیور کو کال کرو کہ فورا انہیں لے کر آئے۔۔ جلدی کرو جلدی۔
خون ملا کہ نہیں؟ سسٹر جی پیشاب کی نالی تو ڈال دیں۔۔ ہاتھ میں کینولا بھی لگا دیں۔
جی ڈاکٹر ہاتھ میں کوئی نس ہی نہیں مل رہی۔۔ لگتا ہے سارا خون نچڑ گیا۔
چلیں پاؤں میں دیکھ لیں۔۔ لیب ٹیسٹ بھی بھیج دینا، ہیمو گلوبن کا تو پتہ چلے۔
جی خون کی صرف ایک بوتل پڑی ہے بلڈ بینک میں۔۔ -
اف خدایا۔۔ ایک بوتل سے تو یہ نہیں بچ سکتی۔۔
سٹریچر پہ پڑی سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی بے جان پڑی ہے۔
ایک منحنی سی لڑکی آگے آتی ہے۔۔ میڈم میں دے دوں؟ میرا بھی یہی گروپ ہے۔
ڈاکٹر نوشین۔۔ آپ دیں گی؟ سوچ لیں ہاؤس جاب میں پہلے ہی اتنی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔
کچھ نہیں ہوتا میڈم۔۔ میرا ہیمو گلوبن اچھا ہے، پھر بن جائے گا خون دو چار ہفتوں میں۔
میڈم، ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ میں کھانا کھا رہا ہوں۔۔ کچھ دیر بعد جاتا ہوں۔
افوہ۔۔ اسے کہو، تمہیں کھانے کے پڑی ہے، یہاں بے چاری مر رہی ہے۔ فون کرو اسے اور کہو کہ فورا سینئر ڈاکٹر کو لے کر آئے۔
دوسرا منظر؛
ہائے ہائے۔۔ آج تو میں ڈاکٹروں نرسوں کو بلا بلا کے تھک گئی کوئی میری بات ہی نہیں سنتی۔۔
میرا بھی درد کے مارے برا حال ہے۔۔ مجھے چیک بھی نہیں کیا کسی نے۔۔ کتنی دیر ہوگئی؟
بس ایسی ہی ہیں یہ نرسیں ڈاکٹریں۔۔ مریض درد سے بے حال رہتا ہے۔۔ ان کے نخرے ہی نہیں ختم ہوتے۔۔ بس آنیاں جانیاں دیکھا کرو۔۔ پتہ نہیں کام کرنے آتی ہیں یا گپیں مارنے؟
ہاں میں نے دیکھا، بیٹھی چائے پی رہی تھیں سب۔۔ ان کی چائے ہی نہیں ختم ہوتی۔ ہم یہاں پڑے مر رہے ہیں۔
صاحبو۔۔ ان سرکاری ہسپتالوں میں بھاگ دوڑ کرنے والے جونئیر ڈاکٹرز کا درد دل اور انسانیت کی خدمت کا عزم انہیں ہر قربانی دینے پہ آمادہ کر لیتا ہے۔ لیکن کب تک؟
وقت کانچ کے بنے ان انسانوں کو آہستہ آہستہ پتھر میں بدل دیتا ہے، کہ ان کے ارد گرد بنا تمام نظام ادھورا اور ٹوٹا پھوٹا۔۔ کب تک لڑیں؟ کس کس سے لڑیں؟ حد تو یہ ہے کہ موت کے دروازے پر کھڑے مریض کے پیارے بھی اجنبی بن کر ذمہ داری سے دامن چھڑاتے ہیں۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں۔۔ صرف ڈاکٹر نہیں!