Thursday, 17 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Pulao Khain Ge Ahbab, Fateha Hogi

Pulao Khain Ge Ahbab, Fateha Hogi

پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہو گی

صاحبو، سوچ تو ہم عرصے سے رہے تھے کہ کیا ہوگا؟ بعد مرنے کے میرے کیا ہوگا؟ دل ناداں بہت کچھ کا تمنائی تھا جس میں پلاؤ اور زردہ سر فہرست تھے کہ دونوں ہمیں بہت پسند ہیں اور اس وقت تو نشہ ہو جاتا ہے جب ہم دونوں کو قورمے کے ساتھ ملا کر کھائیں (چمچ کے ساتھ)۔ کئی لوگوں کی آنکھیں باہر نکل آتی ہیں اور زیرلب پینڈو کا لفظ بھی ہم سن لیتے ہیں مگر ہمارے کان جوں تک نہیں رینگتی۔ لد گئے وہ دن جب جوئیں سر میں بسیرا کرتی تھیں۔

خیر ہم بات کر رہے تھے ہونے نہ ہونے کی، کچھ خوش فہمی تھی یا زعم کہ ہم جو دن رات کچھ سکھانے یا پڑھانے کے غم میں گھلے جاتے ہیں، جہاں داد دینے والے بھی بے شمار وہاں طعن وتشنیع والے بھی ان گنت سو چونکیں گے تو ضرور کہ کہاں گئیں محترمہ۔ لیکن جناب کچھ بھی نہ ہوا تاوقتیکہ ہم نے آٹھ روز پردہ کرنے کے بعد خود ہی سلام پیش کیا۔

لیکن آخر ہوا کیا تھا؟ سوشل میڈیا سے ناراضگی یا آرام کی تمنا؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ خفا تو ہم ہوتے نہیں، کہہ سن کر دل کی بھڑاس نکال کر آگے بڑھ جانے والوں میں سے ہیں ہم اور آرام؟ ہماری ہڈیاں کام کے بعد اتنا نہیں تھکتیں جتنا آرام کے بعد کڑکڑانے لگتیں ہیں اور ساتھ میں فریاد بھی کہ چلو اٹھو کہیں چلیں، کچھ کریں۔۔ بقول زکوٹا جن، میں کیا کروں؟ کس کو کھاؤں؟

چلیے مزید آپ کا صبر نہیں آزماتے یہ الجھی الجھی کہہ کر۔۔

ہوا کچھ یوں کہ دل نادان نے گھر سے نکلنے کی سوچی۔ سامان ہلکا رکھنا مقصود تھا سو لیپ ٹاپ، آئی پیڈ جیسے تام جھام چھوڑ، صرف فون لیا اور نکل کھڑے ہوئے۔

کہاں؟ جہاں گھومتا پہیہ لے جائے۔

اور وہاں پہنچتے ساتھ ہی دنیا سے رابطہ ختم کہ کوئی اچکا وہ چیز ہی لے اڑا جو ہمیں دنیا سے باندھے رکھتی تھی۔

پوچھنے والوں نے پوچھا۔۔ ای میل کا پاس ورڈ؟

پتہ نہیں۔۔

واٹس ایپ کا پاس ورڈ؟

پتہ نہیں۔

فیس بک کا پاس ورڈ؟

علم نہیں

آئی کلاؤڈ پاس ورڈ؟

کچھ اندازہ نہیں۔

کسی کا فون نمبر؟

کون یاد رکھتا ہے آج کل کوئی کسی کا فون نمبر۔

پوچھنے والے سر پیٹ کر رہ گئے کہ یہ خاتون تو دنیا و مافیہا سے بے خبر، نہ جانے خود کو بھی جانتی ہیں کہ نہیں؟

سب کے چہروں کے پریشانی دیکھ کر ہم نے سوچا کچھ ذہن پہ زور ڈالا جائے، اور یاد آ گیا بھئی بیٹی کا ای میل، بتایا اسے جان مادر، مادر پردیس میں لاپتہ ہوگئی کیا کرے؟

مجھے پتہ ہے امی، آپ جب گھر سے نکلتی ہیں نہ دائیں دیکھتی ہیں نہ بائیں، ارے بٹیا رانی ہم تو اوپر نیچے بھی نہیں دیکھتے، تو بس پھر یہ تو ہونا ہی تھا، کافی پیتے ہوئے کہیں رکھا ہوگا اور پھر چل پڑیں ہوں گی اپنی موج مستی میں۔

ہم مم، ہوا تو کچھ یوں ہی تھا۔ مل گئی تھی نوجوانی کے زمانے کی ایک دوست جس کے ساتھ مل کر یوں قہقہے لگائے کہ راہ چلتے لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کون ہیں یہ دیوانی عورتیں؟

پھر ٹرینوں کے پیچھے بھاگتے، پلوں کو پار کرتے، دروازوں کو دھکیلتے، پلیٹ فارم پر کودتے اور قہقہے لگاتے پہنچ تو گئے منزل پہ مگر وہی بے وفا جیب سے نکل گیا یاکسی نے پار کر لیا، اب کیا کروں؟ ہم نے معصومیت سے سوال کیا۔

اففف میری ماں، سہیلی کو دیکھ کر بھول ہی گئیں کہ اب اٹھارہ کہ نہیں۔

سچ پوچھو تو اٹھارہ ہی کی ہوں بس بال دائمی نزلے نے سفید کر دئیے، ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔

اور ہم؟ ہم کہاں سے آئے؟ بیٹی نے دانت کچکچاکر کہا۔

وہ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ہم اور تم اکھٹے پروان چڑھے، ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔

آپ تو سیدھی بات کریں گی نہیں، سو میں ہی کر لیتی ہوں، اگر فون آپ خرید بھی لیں ابھی تو آئی کلاؤڈ کا پاس ورڈ تو ہے نہیں، سم بھی نہیں کہ نمبر واپس آ جائیں۔۔

سو انتظار کریں گھر واپس جانے کا، جہاں لیپ ٹاپ بھی ہوگا، سم بھی مل جائے گی اور وہ پاس ورڈ ڈائری بھی جو آپ کو ہم کئی بار بنا کے دے چکے ہیں کہ ساتھ رکھا کریں۔

اور اگر ڈیٹا واپس نہ ملا تو؟ تمہیں پتہ ہے کہ ہم نے آج تک جو لکھا ہے وہ فون کے نوٹس پہ لکھا ہے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کبھی آپریشن تھیٹر میں ملی کچھ فراغت میں، کبھی ریل میں سفر کرتے، کبھی ہسپتال میں چائے پیتے۔

جی، میں جانتی ہوں، آپ کا فون محض فون نہیں تھا، آپ کی ڈائری، الارم کلاک، کیلنڈر، تحاریر، تصاویر، تاریخیں، ایک جہان آباد تھا اس کے اندر۔

کیا تمہیں علم ہے اگر فون پہ اردو ٹائپنگ نہ ہوتی تو شاید میں کبھی لکھنا ہی شروع نہ کرتی۔۔ مجھے کاغذ پین استعمال کرنا نہیں آتا، اردو کبھی لکھی ہی نہیں ایف ایس سی میں دیے گئے ایک پرچے کے علاوہ، انیس سو تراسی میں دیا تھا وہ بھی۔۔ ہم نے مسمسی شکل بنا کر کہا۔

معلوم ہے ہمیں سب، سکول کا ہوم ورک آپ نے کبھی کیا نہیں کہ آپ کو صفحے کالے کرنا پسند نہیں تھا۔

تو سوچو، اب کیسے لکھتی اگر انگلی فون پہ ٹائپ نہ کرتی؟ ہائے میرا پیارا فون۔

اچھا اب جو ہوا سو ہوا اب صبر کریں ایک ہفتہ۔

ایک ہفتہ، یعنی سات دن۔۔ ہم کچھ نہ لکھیں فیس بک پہ؟ ہم نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔

نہیں، سکون بھری آواز۔

اور وہ واٹس ایپ کے دوست۔

آرام کریں وہ بھی۔

اففف اور جو میں لکھتی ہوں ہم سب پہ باقاعدگی سے؟

بے قاعدہ بھی ہونا دیکھ لیں کبھی، لاپروائی سے کہاگیا۔

فیس بک پہ سب ہمارا انتظار کریں گے، انہیں عادت ہے پوسٹس دیکھنے کی، ہم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

بریک دیں انہیں۔۔ دوسری طرف سے تحکم بھری آواز آئی۔

ہمارے فالوورز؟ ہمارے قارئین؟ کیا کریں گے وہ؟

کچھ بھی کر لیں گے امی۔۔ آپ کے بغیر بھی ان کی زندگی ہوگی اور اچھی بھلی ہوگی، جھلا کر جواب ملا۔

اب کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ کچھ نہ پوچھیے۔ ایسا لگا کہ دن ویران اور راتیں پھیکی پڑ گئیں۔۔ ہائے کیا کروں؟ پاکستان میں کھل نائیکی میلہ بپا اور ہمارا نام ہی نہیں۔

دو تین دن بعد کھد بد ہوئی کہ شاید لوگ ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کریں یا فیس بک پہ سٹیٹس لگائیں کہ کہاں گئیں وہ جو حقوق نسواں کی علمبردار بنی بیٹھی تھیں، لوگوں کے موبائل پکڑ پکڑ کر فیس بک پہ جھانک تانک کی کہ کہیں تو شاید کسی نے ہمارا نام لیا ہو؟

نہیں جناب، کہیں بھی کچھ نہیں تھا۔

کچھ دن گزرنے کے بعد ایک بچی فاطمہ شاہ کا پیغام ہماری ایک پرانی پوسٹ کے نیچے نظر آیا۔۔ خیریت ڈاکٹر طاہرہ، کہاں ہیں آپ؟

اس قدر پیار آیا فاطمہ شاہ پہ۔۔ بچی تم نے ہماری عزت رکھ لی۔

یہاں کچھ لوگوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے ہماری کھوج میں ہمارے لواحقین کے نمبر گھما ڈالے، جڑواں ہما کوکب بخاری پہنچیں ہمارے بچوں تک اور یار دلدار ڈاکٹر فرح نے پاکستان میں ہمارے شوہر کا فون بجا ڈالا کہ کہاں ہے میری سہیلی؟ ہمارے کزن صفدر بھائی نے بھی اس فہرست میں شامل رہے۔

قصہ مختصر، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ فون خریدا، آئی کلاؤڈ کی منت سماجت کی اور پھر ہم نے اس جہان گم گشتہ کا رخ کیا جو ہم سے سات دن کے لیے بچھڑ گیا تھا۔ ہم ملے، آپ ملے، ہم نے محبت بھرا شکوہ کیا، آپ نے الفت بھرے جواب لکھے کہ آپ نے ہمیں یاد کیا تھا چاہے دم بھر کے لیے۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ ہم ان لوگوں میں واپس آ گئے تھے جن کے لیے ہمارا ہر لفظ اہم ہے اور ہمارے لیے اس سے تعلق اہم تر۔ احباب کا پلاؤ کھانا اور فاتحہ ہم نے کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔

Check Also

Das Pandra Minute Chahiye

By Javed Chaudhry