Khayal Na Keeta Kise Saadha
خیال نہ کیتا کسے ساڈھا
ہسپتال کے کاریڈور میں ہم دونوں، آگے میں، پیچھے وہ۔ ہر دو منٹ بعد ایک لمبی سانس اور ایک فقرہ، ہائے ہائے، نہ خیال کیتا کسے ساڈھا۔ (کسی نے ہمارا خیال نہیں کیا)
اب ہسپتال میں چلتے چلتے کیا پوچھتی؟ کون؟ کیا؟ کیسے؟
ایک کارویڈور سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے، نرسیں، ڈاکٹر، وارڈ بواۓ، کلرک، چپراسی، سیکرٹری، ہیلو، ہاؤ آر یو؟ ہاؤ ز ڈے؟ فائن، تھینک یو۔
کچھ دیر بعد زیر لب بڑبڑاہٹ اور لمبی سانسوں کے بیچ فائن تھینک یو بھی سنائی دینے لگا۔ ہائے ہائے، نہ خیال کیتا کسے ساڈھا، فائن، تھینک یو۔ فائن فائن، ہائے ہائے، تھینک یو، کسے ساڈھا خیال نہ کیتا؟
ایکس رے کروانے میں کچھ دیر تھی تو پوچھ ہی لیا؟ کیا ہوا تمہیں؟ کیوں بُڑ بُڑا رہی ہو؟
بس جی، کسے خیال نہ کیتا ساڈھا؟
کون؟ کس نے کرنا تھا خیال اور نہیں کیا؟
ہائے ایہہ ساریاں کڈھیاں سوہنڑیاں لگدیاں نیں پئیاں، گٹ پٹ کردیاں۔
(یہ سب کتنی اچھی لگ رہی ہیں، ہنستی بولتی)
کون؟
ایہہ ساریاں زنانیاں۔
(یہ سب عورتیں)
کون سی؟
ایہہ ڈاکٹراں تے چٹے کپڑیاں والیاں نرساں۔
(ڈاکٹر اور سفید کپڑوں والی نرسیں)
تو ان میں سے کس نے تمہارا خیال نہیں کیا؟
نئیں اینھاں دا ناں نئیں تے لیندی پئی۔
(ان کا نام نہیں لے رہی)
تو پھر؟
ماپیاں نوں کہنی پئی آں۔
(ماں باپ کو کہہ رہی ہوں)
کیا کہہ رہی ہو؟
ساڈھا وی خیال کر لیندے، کجھ پڑھا پڑھو چھڑھدے، تے اسی وی ایتھے پھردے، یونی فارماں پا کے، گٹ مٹ کردے۔ چنگا نئیں کیتا اونہاں۔
(کچھ خیال کرتے، مجھے پڑھاتے، تو آج میں بھی یونی فارم پہن کے یہاں پھر رہی ہوتی، ہنستی بولتی۔ اچھا نہیں کیا انہوں نے)
تم کہتیں انہیں کہ پڑھنا ہے۔
ہائے کیی دساں، ساڈھے پاسے کہندے نیں پڑھیاں لکھیاں ادھال ہو جاندیاں نیں۔
(کیا بتاؤں ہماری طرف کہتے ہیں کہ پڑھی لکھی لڑکیاں بے شرم ہو جاتی ہیں)
اس کا کیا مطلب؟
مطلب ایہہ کہ پڑھیاں لکھیاں رقعے لکھیدیاں نیں، لکھ لکھ کے جنڑے لبھ لیندیاں نیں اپنڑی مرضی نال۔ ایس لئئ پڑھان نہ بھیجو۔
(مطلب کہ کہ پڑھی لکھی لڑکیاں رقعے لکھتی ہیں، اپنے لیے شوہر ڈھونڈتی ہیں اپنی مرضی سے اس لیے انہیں مت پڑھاؤ)
اب ہائے ہائے کرنے کی باری ہماری تھی۔
پڑھی لکھی کام کرتی عورت کو دیکھ کر اس عورت کی آنکھ میں اترتا رشک اور حسرت ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جن کے اندر چھپی قابلیت، ذہانت اور خواہشات ایسے دفن کر دی جاتی ہیں جیسے پیدا ہوتے ہی لڑکی گڑھے میں پھینک دی جائے۔
ویسے گڑھے میں پھینکنا ہی تو ہے یہ سب، پیچھے جسم ہی تو بچتا ہے، ذہن اور سوچ کے بغیر ایک ڈبہ۔ اصل میں پدرسری نظام کو مرد کے ساتھ عورت نامی انسان نہیں، ایک ڈبہ چاہئے، جسے وہ جیسے چاہے استعمال کریں، الٹا کریں یا سیدھا، جب چاہیں ٹانگ مار کے کسی کونے میں لڑھکا دیں، من میں آئے تو مکا مار کے پچکا دیں، ڈبہ ہی تو ہے، کیا کرے گا؟
اور وہ بات کہ پڑھی لکھی لڑکی اپنی زندگی کی گاڑی کا سٹیئرنگ ویل خود سنبھال لے اور اپنے رستے پر خود چلے، پدرسری نظام کیسے کرےبرداشت؟ بادشاہت تب ہی قائم رہتی ہے جب تک رعایا سر نہ اٹھائے۔ کوئی سر اٹھائے تو کچل دیا جائے، بس یہ ہے پوری کہانی۔
اپنے ماں باپ سے شکوہ کرتی یہ عورت ایک لفظ نہیں پڑھ سکتی، نہ ہی لکھ سکتی ہے لیکن سمارٹ فون کا استعمال ایسے جیسے ہم اور آپ کریں۔ واٹس ایپ کی نشریات ہم تک یوں متواتر پہنچتی ہیں کہ بعض دفعہ جی چاہتا ہے واٹس ایپ کا موجد سامنے ہو، اور اسے کہیں لے بھائی تو سن یہ ریڈیو۔
پانی نہیں ہے گھر میں، آتے ہوئے لے آئیے گا، مالی نہیں آیا، کیا پکاؤں؟ کریلوں میں گوشت ڈالوں کہ نہیں؟ مارکیٹ گئی ہیں تو دھنیا پودینہ تھوڑا سا لے آئیں، کباب مصالحہ شان کا ہونا چاہئے۔ بیٹی ابھی تک سو رہی ہے، مالی کو تنخواہ دے دی۔
پاکستان اکیلی آتی جاتی ہیں۔ ویزا پاسپورٹ، شناختی کارڈ کونسا پاکستان کا کونسا یہاں کا، سب علم ہے۔ جمعے کو عورتوں کی مسجد میں اکیلے نماز پڑھنے جاتی ہیں۔ کبھی بس میں، کبھی ٹیکسی پہ، عربی اور انگریزی سے ناواقفیت راستے کا پتھر کبھی نہیں بنی۔ واپسی پہ ہاتھ میں کبھی حلوہ پوری ہوتا ہے کبھی نان چھولے، حیدر کو پسند ہیں نا، اس لیے لائی ہوں۔
بارہ برس پہلے جب ہمارے پاس آئیں تو کھانا ویسا ہی پکاتی تھیں جیسا دیہی علاقوں میں بنتا ہے۔ مائیکرو ویو اور دوسری مشینیں پہلی بار دیکھی تھیں۔ حیران ہو ہو کر پوچھتیں، ہائے کیویں چلسی اے؟
اسی تے لکڑیاں تے پاتھیاں بال کے ہانڈی روٹی کری دی اے۔
(یہ کیسے چلے گا؟ ہم تو لکڑیاں اور اپلے جلا کر کھانا بناتے ہیں)
اب یہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ایسے کھیلتا ہے کہ لگتا ہے وہ کسی دن ہمیں سکھائیں گی، تساں بیٹر سدھا نئیں پھڑیا، اوون دا ٹیم تساں غلط لایا اے۔
(آپ نے بیٹر سیدھا نہیں پکڑا؟ اوون کا وقت آپ نے غلط سیٹ کیا ہے)
پاسٹا کی نوڈلز کتنی ابالنی ہیں؟ چائینز چاول میں کیا ڈالا جاتا ہے؟ کیک اور کپ کیک میں کیا فرق ہے؟ کیٹو ڈائٹ بسکٹ کیسے بنتے ہیں؟ بروکلی چکن گرل کرنا ہے یا بیک کرنا؟ حلیم کو کب گھوٹنا ہے؟ حیدر میاں کے ناشتے میں پین کیک پہ چاکلیٹ سیرپ ڈال کر سٹرابیری کیسے لگانی ہے؟ سلائس کو ٹوسٹر میں کتنا براؤن کرنا ہے؟ نیوٹیلا کی تہہ کتنی ہونی چاہیے؟ مہمانوں کو چائے کیسے پلانی ہے؟ چائینز چاول میں کیا کچھ ڈالا جائے گا؟
ان سب کو چھوڑیے، ایک اور چیز جس کے لیے سب دوستوں میں ہمارا گھر مشہور ہے، وہ ہیں سموسے۔ کس کس کو یاد ہیں سکول کالج کی کینٹین میں ملنے والے آلو سموسے جو بازاری پٹی کے بغیر بنائے جاتے تھے۔ وہی دور چل رہا ہے ہمارے ہاں۔ اس قدر خستہ اور چٹپٹے کہ دو چار کھا لو، پیٹ بھرے پر من نہ بھرے، مہمان کھانے کے بعد بچے ہوئے سموسے لپیٹ کر ساتھ لے جانے کی فرمائش کریں۔
سو ڈیڑھ سو سموسے بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل۔ کچھ برسوں پہلے بڑی نے کہا کہ لے کر جانے ہیں یونیورسٹی۔ سموسوں کی تعریف تو ویسے ہی نہال کر دیتی ہے انہیں۔ بنا ڈالے فورا ڈیڑھ سو۔ ڈبوں میں فریز ہوئے، بکسے میں ڈالے، پہنچ گئے امریکہ۔ ائیر پورٹ پہ بھی چھوٹ گئے، ویزا مل گیا۔ لو جی عیش ہوئی امریکی، چینی جاپانی دوستوں کی جو سوں سوں کر کے ناک پونچھتے کھاتے جاتے۔ بیٹی آئی تو بتایا انہیں۔
میں آکھیا سی ناں، میرے جیا سموسہ کوئی نئیں بنا سکدا۔
(میں نے بتایا تھا نا میرے جیسا سموسہ کوئی نہیں بنا سکتا)
کبھی کبھار میں کہتی ہوں، تم تو سموسوں کی دکان بنا لو، پورے شہر میں ویسے ہی دھوم مچ جائے جیسے پنڈی صدر میں کریم ہوٹل کے سموسوں کی۔ جن لوگوں نے کھائے ہوں وہ ہماری بات سمجھ سکتے ہیں۔ گرم گرم سموسے کڑھائی سے سارا دن نکلتے اور لینے والے قطار میں ہوتے۔ صدر جائیں اور کریم سموسہ نہ کھائیں، ممکن نہیں۔
یہی حال یہاں بھی ہے، کوئی ہمارے گھر آئے اور نسیم سموسہ نہ کھائے اور پھر انگلیاں چاٹتے ہوئے نہ جائے، ممکن نہیں۔
سوچیے اگر کسی سکول کالج میں پڑھی ہوتیں تو کیا کچھ نہ کر رہی ہوتیں۔
یہ ہیں نسیم بی بی، گھر میں ہماری مددگار۔ حیدر میاں نے سکول ان کے سامنے جانا شروع کیا اور آج وہ یونیورسٹی جا چکے ہیں۔ یقین جانیے حیدر کی بہت سی کہانیاں ہمیں نسیم بی بی کی زبانی پتہ چلتی ہیں۔ وہ مستقبل میں کہاں رہیں گے؟ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
یہ ہے عورت کی بدقسمتی جب صلاحیتوں کو عزت و غیرت کی چادر اُوڑھا کر محدود کر دیا جاتا ہے اور مرد پیٹ میں روٹی ڈالنے کے احسان کا ڈھول پیٹتا رہتا ہے۔ تم لوگوں کے لیے مزدوری کرتا ہوں سارا دن، باہر کی خاک چھانتا ہوں، در بدر پھرتا ہوں۔
بھائی میاں، عورت اور بچوں کے لیے نہیں، تم یہ سب کچھ اپنے لیے کرتے ہو۔ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے۔ ورنہ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے چلو میری ہم سفر، تعلیم مکمل کرو، جو چاہتی ہو کرو، گھر کی مشقت مل جل کر کریں گے۔