Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Joyland

Joyland

جوائے لینڈ

جوائے لینڈ بنی، ریلیز ہونے سے پہلے ہی پابندی کی زد میں آگئی۔ سب چونک اٹھے کہ اب کیا کر دیا سرمد سلطان نے؟ زندگی تماشا کے بعد بھی چین نہیں آیا اسے؟

پتہ چلا کہ نہیں، اب کے یہ بھاری پتھر صائم صادق نے اٹھایا ہے لکھنے اور ڈائریکٹ کرنے کے لیے، سرمد سلطان بھی ہیں لیکن پشت پہ۔

کیا ہوا بھئی؟ کیا ہے جوائےلینڈ میں؟

ایک تصویر نظر آئی جس میں دوپٹّہ لہراتی حسینہ سکوٹر چلا رہی ہے اور پیچھے ایک لڑکا بیٹھا ہے۔ پتہ چلا ٹرانس لڑکی ہے اور پیچھے بیٹھا لڑکا محبوب!

کیا بس اتنا ہی؟ اس میں پابندی لگنے والا کیا ہے؟

نیویارک سے بیٹی کا فون آیا، امی آپ نے جوائے لینڈ دیکھی؟

نہیں، کیوں؟ میں دیکھ چکی ہوں۔۔ کیا فلم ہے۔ آپ آئیں گی نا نیویارک تو مل کر پھر سے دیکھیں گے۔

سو صاحبو ہماری Things to do list in New York میں جوائے لینڈ بھی شامل ہوگئی۔

نیویارک پہنچتے ہی دم لینے سے پہلے ہم نے فرمائش داغ دی، لگاؤ جوائے لینڈ۔۔

مجھے پتہ تھا، امی ہانپتے کانپتے جہاز سے اتریں گی اور پہنچتے ہی کہیں گی، جوائے لینڈ۔

ہاں بھئی تم نے ہمارے شوق کو اس قدر ہوا جو دے دی تھی۔

سو صاحبو دیکھ لی فلم اور بیٹی کے سوال کا جواب بھی دے دیا، کہ کیوں بنی ہوگی فلم؟

ارے بٹیا رانی، ٹرانس ویمن تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اور عورتیں بھی تو ہیں اور ان کے ساتھ کمزور مرد، مرد اور کمزور؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مردانگی کے غبارے کو بیچ چوراہے میں پھوڑنے کی کوشش؟

کیا کافی نہیں پابندی کے لیے؟

عورتیں اور شکایت کریں اپنی زندگی کی؟ کیوں بھئی؟

ناشکری عورتیں، سر پہ چھت، پیٹ میں روٹی اور جسم پہ کپڑا تو انہیں مل رہا ہے۔ اس کے بعد اور کیا چاہئے انہیں؟ اور اگر کچھ اور بھی چاہئے جس کے لیے زبان بھی کھل جائے تو اچھی عورتیں تو نہ ہوئیں نا۔

کیوں مانگتی ہیں اپنے لئے تھوڑی سی عزت، کچھ محبت، پاؤں رکھنے کی جگہ اور اُڑنے کو دو پر؟ کیوں دیں انہیں یہ سب؟ چاہے یہ مائیں ہوں، بیویاں ہوں، بہوئیں ہوں یا بیٹیاں، یاد رکھنا چاہئیے انہیں کہ ان سب چیزوں کی اجازت کا مالک مرد ہے اور اگر گھر کا مرد خوش نہیں تو بس لپیٹ لیں اپنی دکان۔

ایک گھر۔۔ اندرون شہر کا گھر، جہاں ایک معذور بوڑھا اپنے دو بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھ رہتا ہے۔ بیوی انتقال کر چکی ہے۔

بڑا بیٹا کماؤ ہے اور بیوی ہاؤس وائف، دو بیٹیاں پیدا کر چکی ہے اور تیسری فلم کے شروع میں پیدا ہوتی ہے جس سے گھر میں سب مایوسی کا شکار ہیں۔ گھر بہت چھوٹا ہے اور بچیوں کو سلانے تک کے لیے جگہ نہیں۔ بڑی دادا کے ساتھ سوتی ہے، منجھلی چچا چچی کے بستر پہ اور چھوٹی اماں ابا کے ساتھ۔

چھوٹا بیٹا بیروزگار ہے اور اس کی بیوی بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہے۔ اسے اپنی نوکری بہت پسند ہے اور شادی کے وقت اس کی واحد فرمائش یہی تھی کہ وہ نوکری نہیں چھوڑے گی۔ اسے شوہر کے بیروزگار ہونے پہ کوئی شکایت نہیں جو گھر رہ کر بھابھی کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ وہ ابھی بچہ بھی پیدا نہیں کرنا چاہتی جس سے سسر اور جیٹھ کو بہت تشویش ہے اور وہ چھوٹے بیٹے سے تفتیش کرتے رہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے نا؟

چھوٹا بیٹا نوکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے سٹیج ڈراموں تک پہنچتا ہے اور وہاں ڈانس کرنے والی ٹرانس گرل کا اسسٹنٹ بن جاتا ہے۔ ٹرانس ہونے کی وجہ سے سٹیج شوز کے ڈائریکٹرز اسے زیادہ کام نہیں دیتے حالانکہ وہ دوسری سٹیج آرٹسٹوں کے مقابلے میں زیادہ ٹیلنٹڈ ہے۔

چھوٹا بیٹا گھر میں نہیں بتاتا کہ وہ سٹیج ڈانسر کا آرٹسٹ ہے بلکہ اپنے آپ کو سٹیج ڈراموں کا مینیجر کہتا ہے جس سے باپ کو اعتراض نہیں ہوتا۔ اسے نوکری ملتے ہی سسر اور جیٹھ چھوٹی بہو کی نوکری چھڑوا دیتے ہیں جس سے وہ بہت دل گرفتہ ہوتی ہے۔

اب چھوٹے بیٹے سے یہ بھی اصرار ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حاملہ کرے۔ چھوٹے بیٹے کو اپنی بیوی تو اچھی لگتی ہے لیکن ٹرانس گرل سے دوستی بڑھنے کے بعد اس کا افئیر شروع ہو جاتا ہے۔ افئیر کے بعد بیوی سے تعلقات میں سرد مہری آ جاتی ہے۔ دیر گئے گھر آنا اور بیوی کے حاملہ ہونے کے باوجود اس سے سیدھے منہ بات نہ کرنا بیوی کو ڈپریشن میں مبتلا کر رہا ہے۔

فلم میں ایک عورت اور بھی ہے۔ ادھیڑ عمر کی بیوہ خالہ، جو ان کے ہمسائے میں رہتی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن ان کے گھر آتی ہے اور بوڑھے سسر سے گپ شپ کرتی ہے۔ بڑی بہو کا خیال ہے کہ سسر اور خالہ کے درمیان کچھ نہ کچھ پوشیدہ پسندیدگی ہے۔ گھر میں بڑی بہو اور چھوٹی بہو ہر وقت کام کرتی رہتی ہیں اور سسر کی خدمت بھی۔

ایسے ہی ایک دن بڑی اور چھوٹی بہو بچیوں کو لے کر جوائے لینڈ جاتی ہیں۔ ہمسائی خالہ سے درخواست کی جاتی ہے کہ سسر ابا کا خیال رکھا جائے۔ خالہ ہامی بھر لیتی ہیں۔ سسر چونکہ وہیل چئیر پر ہیں سو بہوؤں کی غیر موجودگی میں باتھ روم جاتے جاتے ان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ سسر کو خالہ کی موجودگی میں بہت شرمندگی ہوتی ہے لیکن خالہ انہیں تسلی دیتی ہے اور کپڑے بدلوانے کے لیے کمرے میں لے جاتی ہے۔

رات کافی ہو جاتی ہے۔ بیٹے بہوئیں دیر تک واپس نہیں آتے۔ خالہ واپس جانے کے لیے اُٹھتی ہے تو سسر اس خیال سے روک لیتے ہیں کہ اکیلے کیسے جائے گی؟ سسر کے فون سے وہ اپنے بیٹے کو فون کرتی ہے کہ آ کر اسے لے جائے لیکن بیٹا فون ہی نہیں اُٹھاتا۔ سسر تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ رات وہیں گزار لیں۔

بیٹے اور بہوئیں واپس آتے ہیں تو ابا کے کمرے کا دروازہ بند ملتا ہے۔ وہ بہت حیران ہوتے ہیں اور حیرانی پریشانی میں بدل جاتی ہے جب صبح خالہ بھی ابا کے کمرے میں موجود ہوتی ہے۔ یہ خبر خالہ کے گھر تک پہنچ جاتی ہے اور خالہ کا بیٹا آکر اپنی ماں پہ خوب گرجتا برستا ہے کہ اس نے یہ رات ایک دوسرے گھر میں غیر مرد کے کمرے میں گزاری ہے۔ جس پہ ماں اس سے احتجاج کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر اسے اتنی فکر تھی تو رات کو اس نے گھر میں کیوں نہیں دیکھا کہ ماں کہاں ہے؟ اور اس فکر میں ڈھونڈنا تو دور کی بات، فون بھی اٹینڈ نہیں کیا۔

خالہ بلا کسی ہچکچاہٹ فیصلہ سناتی ہے کہ سسر آمادہ ہوں تو وہ اس گھر میں ان سے رشتہ بنا کر رہ سکتی ہے؟ خالہ عورت ہوتے ہوئے بھی یہ کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ ادھیڑ عمری کے معنی زندگی کا اختتام نہیں۔ لیکن دوسری طرف سسر میں اتنی ہمت نہیں کہ اس عمر میں زمانے سے ٹکر لے سکیں سو منہ موڑ کر ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں یہ تجویز قبول نہیں۔

خالہ کا بیٹا فلم کا پہلا کمزور مرد ہے، اور سسر دوسرا، لیکن ٹھہریے بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی، ابھی کچھ اور بھی ہے۔

ٹرانس گرل سٹیج ڈراموں سے پیسے اکھٹے کررہی ہے کہ وہ آپریشن کروا کر مکمل عورت بننا چاہتی ہے۔ وہ جب بھی اس خواہش کا اظہار کرتی ہے، چھوٹا بیٹا اسے کہتا ہے کہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ جس پہ ٹرانس گرل اس سے ہمیشہ سوال کرتی ہے کہ کیوں مگر جواب نہیں ملتا۔

چھوٹا بیٹا اور ٹرانس گرل کافی قریب آ چکے ہیں۔ ایک رات دونوں رومانس کا آغاز کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد چھوٹا بیٹا ڈانسر کی طرف پیٹھ موڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا چہرہ اپنی طرف گھماتی ہے لیکن وہ پھر سے اپنی پہلی پوزیشن پر چلا جاتا ہے۔

ٹرانس گرل اس کا عندیہ سمجھ جاتی ہے اور پیچ وتاب کھاتے ہوئے اسے گھر سے باہر نکالتے ہوئے کہتی ہے کہ میں آج سمجھی تم نے مجھ سے دوستی کیوں کی تھی؟ کان کھول کر سن لو، میں عورت ہوں اور عورت ہی رہوں گی۔ یہ ہے، فلم کا تیسرا کمزور مرد، چھوٹا بیٹا۔

چھوٹی بہو کو ڈاکٹر بتاتی ہے کہ ہونے والا بچہ لڑکا ہے۔ یہ سن کر گھر میں خوب خوشی منائی جاتی ہے۔ سسر کا کہنا ہے کہ شکر ہے چھوٹے بیٹے کے بعد اس گھر میں کوئی لڑکا پیدا ہونے جا رہا ہے۔

چھوٹی بہو بہت زیادہ ڈپریسڈ ہے۔ اس نے شادی سے پہلے اپنے شوہر سے صرف ایک بات کہی تھی کہ میں شادی کے بعد نوکری نہیں چھوڑوں گی مگر اس کی یہ بھی نہیں مانی گئی اور اب اس کی زندگی ویسی ہی ہے جیسی لاکھوں عورتیں گزارتی ہیں بنا کسی آرزو اور خواب کے۔

آخری سین میں وہ تیزاب کی بوتل پکڑ کر باتھ روم میں بیٹھی ہے اور شوہر کی بے توجہی کا یہ عالم ہے کہ وہ باتھ روم میں آتا تو ہے لیکن نہ اس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل کے بارے میں پوچھتا ہے اور نہ ہی اس کی طبعیت کے بارے میں۔

وہ زہر پینے کے بارے میں کش مکش کا شکار ہوتی ہے لیکن شوہر کی لاپرواہی اس کش مکش کو فیصلے میں تبدیل کر دیتی ہے۔

اگلے دن اس کے جنازے کو اُٹھتا دیکھ کر جیٹھ تنفر سے کہتا ہے، یہ اچھی عورت نہیں تھی اس نے ہمارے گھر کے وارث کو اپنے ساتھ ڈبو دیا۔ تب بڑی بہو چیختی ہے کہ یہ خودکشی اسے ہم سب نے مارا ہے، اس پہ زندگی کے دروازے بند کرکے۔

اس فلم کا چوتھا کمزور مرد یہی جیٹھ ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ صائم صادق اور سرمد سلطان جیسے عورتوں کے ہامی مردوں نے یہ فلم بنائی ہے۔

جیتے رہو صائم، جیتے رہو سرمد!

Check Also

Janaze

By Zubair Hafeez